021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مناسخہ کا مسئلہ
69048میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

والد کے انتقال کے وقت ورثاء میں دوبھائی،چھ بہنیں اور ایک والدہ تھی،جبکہ آج دوبھائی اور پانچ بہنیں ہیں۔والدہ محترمہ اوربڑی بہن کا انتقال ہوگیا ہے۔بڑی بہن کی صرف  تین بیٹیاں موجود ہیں۔والد کے انتقال کے وقت ایک 120 گز اور دوسرا60 گز کاکچا مکان تھا،جن کی خریداری میں زیادہ رقم والدصاحب کی تھی۔1986 میں والد صاحب نے120 گز کا مکان دوبھائیوں کے نام کر دیا جس کا علم بہنوں کو نہیں تھا۔پھر اس کے بعدایک سو بیس گز والا مکان RCCبنوانا شروع کیا اور1994 میں ایک منزلہ ڈھانچہ تیار ہوگیا۔اس میں ہماری والدہ کی رقم کے ساتھ ساتھ ہم بہنوں کی بھی کچھ رقم خرچ ہوئی اور اللہ کے کرم سے ایک پرائیویٹ اسکول کا آغاز ہوگیا۔اسکول کی ترقی میں بھائی نے سب سے زیادہ کردار ادا کیا۔

اسی دوران جو 60 گز کا پلاٹ تھا اسے فروخت کر کےدو پلاٹ خرید لئے اور انکو تعمیرکر کے کرایہ پر دے دیا۔یہ دونوں پلاٹ والدہ کے نام پر تھے۔چند سالوں بعد یہ پلاٹ بھی فروخت کر دیئے۔ ایک پلاٹ کی قیمت بارہ لاکھ پچاس ہزار ملی،جبکہ دوسرے پلاٹ کی قیمت نوے لاکھ پینسٹھ ہزار آئی۔اس کے علاوہ امی کے پاس کچھ زیورات ہیں جو امی نے اپنی زندگی ہی میں بیٹیوں کے نام کر دئے تھے،لیکن قبضہ نہیں کرایاتھا۔120 گز کے پلاٹ پر تین منزلہ عمارت تعمیر ہوگئی اور اس کی تعمیر میں اسکول سے آنے والی آمدنی ہی صرف ہوئی۔

اسکول سے حاصل ہونےوالی آمدنی سے مزید کچھ پلاٹ اورایک گھر بھی خریدا گیا۔مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ میراث کی تقسیم کس طرح ہوگی؟کیا پورے اسکول کی قیمت لگے گی یا جس پورشن میں رہائش ہےصرف وہی حصہ تقسیم ہوگا۔دوسری چیز یہ کہ اسکول کی آمدنی سے جو پلاٹ اور مزید پراپرٹی خریدی گئی اس کی تقسیم کس طرح کی جائے گی،کیونکہ یہ پراپرٹی خریدتے وقت کوئی شرائط یا معاہدہ طے نہیں ہوا تھا۔سب سےپہلے والد صاحب کا انتقال ہوا،اس کے بعد بڑی بہن اور پھر 2018 میں والدہ کا انتقال ہوا ہے۔بڑی بہن کی دو بیٹیوں اور شوہر کا بھی انتقال ہوگیا ہے،صرف تین شادی شدہ بیٹیاں زندہ ہیں۔

تنقیح:سائل سے فون پر معلوم ہوا ہے کہ والد نے بوقت انتقال جو دوپلاٹ چھوڑےتھے،ان میں سے 60 گز کاپلاٹ والد اور والدہ نے مل کر خریدا تھا،اگر چہ والدہ کا حصہ بہت کم تھا۔اسی طرح والد کے انتقال کے بعد جس بڑی بہن یعنی میت کی بیٹی کا انتقال ہوا ہے ،اس کےساتھ ایک حادثہ میں اس کے شوہر اور دوبیٹیو ں کا بھی انتقال ہوا تھا،لیکن میاں بیوی کا انتقال ایک ساتھ،جبکہ بیٹیوں کا انتقال کچھ لمحات کے بعد ہوا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کے والد نے اپنی زندگی میں جو 120 گز کا پلاٹ اپنے بیٹوں یعنی آپ کے بھائیوں کے نام کر دیاتھااورجسٹری کے ساتھ شرعی قبضہ بھی کرادیاتھا ،یعنی اپنا تصرف اور رہائش ختم کرکے اور ہر ایک بھائی کا حصہ الگ کر کےا س کوحوالہ کیا تھا،تووہ پلاٹ آپ کے بھائیوں کی ملکیت ہے اور والد کے انتقال کے بعد اس میں میراث جاری نہ ہوگی،لیکن اگر صرف رجسٹری کرائی تھی اور باقاعدہ شرعی قبضہ نہیں کرایا تھا تو ایسی صورت میں یہ پلاٹ آپ کے والد کی وفات کے بعد ان کی میراث کا حصہ ہے اور تمام ورثاء میں شرعی لحاظ سے تقسیم ہوگا۔

 والد کے انتقال کے بعد اس پلاٹ پر جواسکول کی تعمیر کی گئی ہے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے مزید جائیداد بھی خریدی گئی ہے،توا گر والد نے انتقال سے پہلے رجسٹری کے ساتھ بیٹوں کو قبضہ بھی کرادیاتھا تو ایسی صورت میں اس کی تعمیرات پر جو رقم آپ بہنوں اورآپ کی والدہ نے لگائی تھی،توچونکہ رقم لگاتے وقت قرض یا تعاون کی نیت نہیں تھی،بلکہ یہ نیت تھی کہ اسکول بنا کرآمدنی حاصل کی جاسکے لہذ ا آپ سب عمارت میں اپنی رقم کے تناسب سے شریک ہیں ۔

اس کے بعد جو اسکول سے آمدنی ہوتی رہی ہے اور جائیداد بنائی گئی ہے ،اس میں بھی سب شرکاء اپنی لگائی گئی رقم کے تناسب سے شریک اور حصہ دار ہیں۔البتہ اگر دیگرشرکاء اپنی مرضی سے بڑے بھائی کو زیادہ منافع دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں،کیونکہ اسکول کی تعمیر وترقی میں سب سے زیادہ محنت وکردار بھائی ہی کا ہے۔باقی ایک سو بیس گز کا پلاٹ چونکہ صرف آپ کے بھائیوں کی ملکیت ہےاس لئے اس میں میراث جاری نہ ہوگی۔البتہ اگر والد نے زندگی میں 120 گز کا پلاٹ صرف بیٹوں کے نام کیاتھااور قبضہ نہیں کرایا تھا تو ایسی صورت میں یہ پلاٹ بھی تمام ورثاء میں شرعی لحاظ سے تقسیم ہوگا۔

اس کے علاوہ جو ساٹھ گز کا پلاٹ آپ کے والد نے اپنے ترکہ میں چھوڑا ہے تو اس پلاٹ میں چونکہ آپ کی والدہ نے بھی رقم لگائی تھی،لہذا والدکےا نتقال کےبعد جب یہ پلاٹ فروخت کیا گیا اور اس سے مزید پلاٹ خریدکر وہ بھی فروخت کر دیئے گئے تو جتنی رقم آپ کی والدہ نے شروع میں لگائی تھی اور اس کے بقدر جتنا حصہ آپ کی والدہ کا ساٹھ گزکے پلاٹ میں تھا،اسی تناسب سے اب موجودہ ویلیو کے حساب سے وہ اپنا حصہ لیں گی اوراس کے بعد جو بچے گا وہ سب آپ بہن بھائیوں اور والدہ میں شرعی لحاظ سے تقسیم ہوگا۔

مذکورہ تمہید کی روشنی میں حکم یہ ہے کہ آپ کے والد نے بوقت انتقال اپنی ملکیت میں جوکچھ منقولہ وغیرمنقولہ چھوٹابڑاسازوسامان چھوڑا ہےاور مرحوم کا وہ قرض جو کسی کے ذمہ واجب الاداء ہو،یہ سب میت کا ترکہ ہے۔اس میں سے سب سے پہلےمرحوم کےکفن دفن کے متوسط اخراجات نکالے جائیں،البتہ اگر کسی نے بطوراحسان ادا کردیئے ہوں تو پھریہ اخراجات نکالنےکی ضرورت نہیں۔اس کے بعد مرحوم کا وہ قرض ادا کیا جائےجس کی ادائیگی مرحوم کے ذمہ واجب ہو۔اس کے بعد اگر مرحوم نے کسی غیر وارث کےحق میں کوئی جائز وصیت کی ہوتو بقیہ ترکہ میں سے ایک تہائی کی حد تک اس پر عمل کی جائے۔اس کے بعد جوترکہ باقی بچے ،اس  کوکل 80 حصوں میں تقسیم کر کے بیوہ یعنی آپکی والدہ کو دس ،ہر بیٹی کوسات اور ہر بیٹے کو چودہ حصے دیئے جائیں۔

والد کے انتقال کے  بعد جب آپ کی بڑی بہن کا انتقال ہوا ہے تو جوحصہ ا ن کو اپنے والدکے ترکہ میں سے ملےگا، وہ اور اس کے علاوہ بوقت انتقال ان کی ملکیت میں جوکچھ منقولہ وغیرمنقولہ چھوٹابڑاسازوسامان موجود تھااور مرحومہ کا وہ قرض جو کسی کے ذمہ واجب الاداء ہو،یہ سب میت کا ترکہ ہے۔اس میں سے سب سے پہلےمرحومہ کےکفن دفن کے متوسط اخراجات نکالے جائیں،البتہ اگر کسی نے بطوراحسان ادا کردیئے ہوں تو پھریہ اخراجات نکالنےکی ضرورت نہیں۔اس کے بعد مرحومہ کا وہ قرض ادا کیا جائےجس کی ادائیگی مرحومہ کے ذمہ واجب ہو۔اس کے بعد اگر مرحومہ نے کسی غیر وارث کےحق میں کوئی جائز وصیت کی ہوتو بقیہ ترکہ میں سے ایک تہائی کی حد تک اس پر عمل کی جائے۔

اس کے بعد جوترکہ باقی بچے ،اس کو کل 270 حصوں میں تقسیم کر کےمرحومہ کی والدہ کو پینتالیس،ہر بیٹی کو چھتیس،ہر بہن کو پانچ اور ہر بھائی کو دس حصےدیئے جائیں۔نیز مرحومہ کی جو بیٹیاں ان کے ساتھ حادثہ میں شہید ہوگئی تھیں،والدہ کی میراث سےانکاحصہ بھی نکالا جائے گا،کیونکہ بیٹیوں کا انتقال والدہ کے انتقال کے چند لمحات کے بعد ہوا ہے۔بڑی بہن کے بعد جب والدہ کا انتقال ہوا تو والدہ کو جو کچھ اپنے خاونداور اپنی بڑی بیٹی کے ترکہ میں سے ملےگا ،وہ اور اس کے علاوہ بوقت انتقال والدہ کی ملکیت میں جوکچھ منقولہ وغیرمنقولہ چھوٹابڑاسازوسامان موجود تھااور مرحومہ کا وہ قرض جو کسی کے ذمہ واجب الاداء ہو،یہ سب میت کا ترکہ ہے۔اس میں سے سب سے پہلےمرحومہ کےکفن دفن کے متوسط اخراجات نکالے جائیں،البتہ اگر کسی نے بطوراحسان ادا کردیئے ہوں تو پھریہ اخراجات نکالنےکی ضرورت نہیں۔اس کے بعد مرحومہ کا وہ قرض ادا کیا جائےجس کی ادائیگی مرحوم کے ذمہ واجب ہو۔اس کے بعد اگر مرحومہ نے کسی غیر وارث کےحق میں کوئی جائز وصیت کی ہوتو بقیہ ترکہ میں سے ایک تہائی کی حد تک اس پر عمل کی جائے،اس کے بعد جوترکہ باقی بچے،اس کے کل 9 حصے کر کےہر بیٹی کو ایک حصہ اور ہر بیٹے کو دحصےدئے جائیں۔بیٹیوں کے انتقال کے بعد  جو کچھ ان کو اپنی والدہ کی میراث سے ملے گا ،وہ اور اسکے علاوہ بوقت انتقال جو کچھ ان کی ملکیت میں منقولہ وغیرمنقولہ چھوٹابڑاسازوسامان موجود تھااور ان کا وہ قرض جو کسی کے ذمہ واجب الاداء ہو،یہ سب ان کا ترکہ ہے۔اس میں سے سب سے پہلےان کےکفن دفن کے متوسط اخراجات نکالے جائیں،البتہ اگر کسی نے بطوراحسان ادا کردیئے ہوں تو پھریہ اخراجات نکالنےکی ضرورت نہیں۔اس کے بعد ان کا وہ قرض ادا کیا جائےجس کی ادائیگی ان کے ذمہ واجب ہو۔اس کے بعد اگر انہوں نے کسی غیر وارث کےحق میں کوئی جائز وصیت کی ہوتو بقیہ ترکہ میں سے ایک تہائی کی حد تک اس پر عمل کی جائے،اس کے بعد جو ترکہ باقی بچے وہ ان کی بہنوں ،نانی اور اس کے علاوہ جو ورثاءدادی اور چچا وغیرہ اگر موجود ہیں تو ان کے درمیان تقسیم ہوگا۔دیگر ورثاء کی تفصیل بتا کر ان کے حصص معلوم کئے جاسکتے ہیں۔

حوالہ جات

سیدقطب الدین حیدر  

 دارالافتاءجامعۃالرشید کراچی

07/07/1441

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید قطب الدین حیدر بن سید امین الدین پاشا

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب