021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ثالث کی طرف سے رقم کی واپسی کے مطالبے کا حکم
67990امانتا اور عاریة کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

سوال:میرانام سبحان الحق ولد سید کریم ہے۔مجھے بہادرخان کہتا ہے کہ میرے بھائی عثمان غنی نے آپ کے اکاؤنٹ میں کچھ رقم بھجوائی ہے۔وہ رقم آپ مجھے دے دیں۔میں نے مسلم کمرشل بینک میں اپنے اکاؤنٹ میں معلوم کیا تو اس میں رقم موجود تھی ۔لیکن معاملہ کچھ اس طرح تھا کہ عثمان غنی نے میرے پرانے شناختی کارڈ  پر میرے فوٹو کی جگہ  اپنا فوٹو لگا کر 2003 میں میرے نام سے اکاونٹ کھلوایا تھا۔پھر یہ سعودیہ جاکر مزدوری کرنے لگا اور اکاؤنٹ میں ماہوار رقم بھیجتا رہا۔یہ سلسلہ 2015-16 تک چلتا رہا۔جب یہ پاکستان واپس آیا  تو اس کے پاس نادرہ کا شناختی کارڈ نہیں تھااور نہ ہی بنواسکتا تھااور نہ ہی بینک سے رقم نکال سکتا تھا۔باوجودیکہ اس نے میرے ساتھ دھوکہ کیا لیکن میں پھر بھی رقم کو واپس کرنے پر آمادہ ہوگیا۔میں نے بہادر خان سے کہا کہ تمھارا بھائی عثمان غنی کہا ہے۔تو اس نے کہا کہ وہ تین چار سال سے گھر پر نہیں ہے اور نہ ہی اسکا پتہ معلوم ہے۔بہادر خان کہتا ہے کہ پندرہ لاکھ مجھے دےدو اور باقی آپ رکھ لو۔یہ فیصلہ اس کے بھائی کی غیر موجودگی میں ہورہا ہے۔یہ فیصلہ میرے لیے جائز ہے یا ناجائز۔کل کو اگر اسکا بھائی آتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ نے میری غیر موجودگی میں یہ فیصلہ کیسے کیا ۔مجھے یہ منظور نہیں ہے۔تو میں کیا جواب دونگا۔لہذا  اس مسئلہ کا کوئی حل پیش فرمادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ عثمان غنی کا آپ کے شناختی کارڈ پر اپنا فوٹو لگا کرآپ کے نام سے اکاونٹ کھلواناسراسردھودکہ دہی ہے،جوکہ شرعا وقانونا جائز نہیں ہے۔تاہم عثمان غنی نے آپ کے اکاونٹ میں جورقم بھجوائی ہے وہ آپ کے پاس امانت ہے۔اس کو مالک کی اجازت کے بغیر کسی اور کو دینا  جائز نہیں ہے ،خواہ عوض لیکر ہو یا بغیرعوض کے۔آپ پر لازم ہے کہ اصل مالک کو تلاش کرکے وہ رقم اس کے حوالے کریں۔لیکن صورت مسئولہ میں چونکہ اصل مالک مفقود( لاپتہ) ہے،لہذا  اس کا مال جس شخص کے پاس ہے وہ اس کی حفا ظت کرے اور اگر یہ شخص امین نہیں ہے تو قاضی یا حاکم اس لاپتہ شخص کی طرف سے ایک وکیل مقرر کرے جو اس کے مال کی حفاظت کرے۔اسلیے کہ لاپتہ شخص کو اپنے مال و جائیداد کے بارے میں اس وقت تک زندہ مانا جائے گا جب تک اس کے ہم عمر زندہ ہیں۔جب اس کے علاقے میں اس کے ہم عمر لوگ مرجائیں تب اس کو متوفی ( مردہ) تسلیم کر کے اس کا مال اس کے موجود ورثاء کے درمیان شرعی طریقے کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔

حوالہ جات
القرآن الکریم (النساء۔57)
إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها۔
فتح الباري - ابن حجر (3/ 283)
قوله لا يحل مال امرئ مسلم إلا عن طيب نفس فإنه يتناول القليل والكثير إذ لا قائل بحل القليل دون الكثير وقوله اتقوا النار ولو بشق تمرة يتناول الكثير والقليل أيضا
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (2/ 194)
 الأمانة هي الشيء الموجود عند الشخص الذي اتخذ أمينا . سواء أجعل أمانة بعقد الاستحفاظ كالوديعة أم كان أمانة ضمن عقد كالمأجور والمستعار . أو صار أمانة في يد شخص بدون عقد ولا قصد . كما لو ألقت الريح في دار أحد مال جاره فنظرا لكونه لم يوجد عقد فلا يكون ذلك المال وديعة عند صاحب البيت بل أمانة فقط۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 293)
(وهو في حق نفسه حي) بالاستصحاب، هذا هو الأصل فيه (فلا ينكح عرسه غيره ولا يقسم ماله) قلت: وفي معروضات المفتي أبي السعود أنه ليس لأمين بيت المال نزعه من يد من بيده ممن أمنه عليه قبل ذهابه ۔۔۔۔۔۔(ونصب القاضي من) أي وكيلا (يأخذ حقه) كغلاته وديونه المقر بها (ويحفظ ماله ويقوم عليه) عند الحاجة۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 298)
(وبعده يحكم بموته في حق ماله يوم علم ذلك) أي موت أقرانه (فتعتد) منه (عرسه للموت ويقسم ماله بين من يرثه الآن۔

  طلحہ بن قاسم

  دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

09/05/1441

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طلحہ بن قاسم

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب