69383 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
خالد نے بینک گارنٹی جو 50 لاکھ کی ہے ،اس کو نقد 45 لاکھ میں خریداہے ۔تو کیا خالد کا پچاس لاکھ والی بینک گارنٹی،پینتالیس لاکھ میں خرید کر اس کمپنی سے 50 لاکھ کا مال خریدناجائزہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
بینک گارنٹی کی خرید وفروخت کسی بھی قیمت پر جائز نہیں ہے ۔جب یہ بیع ناجائز ہے تو اس کے ذریعے حاصل کی گئی گارنٹی سے مال کی خریداری بھی ناجائز ہے۔لہذا خالد نے جتنی رقم زید کو دی ہے وہ اس رقم کے بقدر بھی تاجر سے مال کی خریداری نہیں کرسکتا۔البتہ خالد نے جتنی رقم زید کو دی ہے ،اس رقم کے بقدر اس کا مستقل دین زید پر قائم ہوگیا ،وہ یہ رقم زید سے واپس لےسکتا ہے۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع (5/ 305)
وأما البيع الباطل فهو كل بيع فاته شرط من شرائط الانعقاد من الأهلية والمحلية وغيرهما وقد ذكرنا جملة ذلك في صدر الكتاب ولا حكم لهذا البيع أصلا لأن الحكم للموجود ولا وجود لهذا البيع إلا من حيث الصورة لأن التصرف الشرعي لا وجود له بدون الأهلية والمحلية شرعا كما لا وجود للتصرف الحقيقي إلا من الأهل في المحل حقيقة وذلك نحو بيع الميتة والدم والعذرة والبول وبيع الملاقيح والمضامين وكل ما ليس بمال۔
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (1/ 94)
البيع الباطل ما لا يصح أصلا يعني أنه لا يكون مشروعا أصلا . أي أن هذا البيع هو البيع غير الصحيح بحسب الأصل والذات والصفات , ولو قبض المشتري في البيع الباطل المبيع بإذن البائع فلا يصبح له مالكا ويكون كأمانة عنده وذلك بعكس البيع الفاسد كما مر معنا .
طلحہ بن قاسم
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
14/07/1441
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | طلحہ بن قاسم | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |