021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پلاٹ کی خریداری سے متعلق مسئلہ
69855خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

ہم اپنے ایک عزیز کے مبلغ تین لاکھ کے مقروض تھے۔ان کے قرضے کی ادائیگی کےلیے ہم نے اپنے ایک پلاٹ کےکمرشل حصہ سے منسلک نصف حصہ فروخت کرناچاہا۔1999ء میں ہم نے اس نصف حصہ کی قیمت مبلغ پندرہ لاکھ روپے مقرر کرکےاسٹیٹ ایجنسیوں سے رابطہ کیا،تاکہ قرضہ کی ادائیگی کرسکیں۔

اس اثنا میں ہمارے وہ عزیز جن کے ہم مقروض تھے کہنےلگے کہ جو نصف حصہ اپ میر ے قرضہ کی ادائیگی کےلیےفروخت کرنا چاہتےہیں۔ میں اس کانصف خرید لیتاہوں۔ میرا قرضہ بھی وصول ہوجائےگا اور کچھ نقد رقم بھی آپ کے ہاتھ آجائےگی۔اس کے ساتھ ساتھ پلاٹ گھر کےگھر ہی میں رہےگا۔جب آپ کے پاس رقم کا بندوبست ہوجائےتو اپنا پلاٹ واپس لےلینا۔ واضح رہے کہ اس کےلیے کوئی میعاد یا قیمت متعیں نہیں کی گئی کی مذکورہ فروخت شدہ حصہ کب تک اور کس قیمت پر واپس کیا جائےگا، مزید کہ واپسی کاوعدہ زبانی ہوا تھا۔

چونکہ ہمارے وہ عزیز متقی عالم دین تھے اور ان کی یہ پیشکش کسی قسم شک و شبہ سے بالاتر تھی ۔لہذا یہ سوچ کر کہ  ہم اپنےگاؤں کی زرعی زمین فروخت کرنے کی کوشش میں بھی لگے ہوئےہیں۔جونہی وہ رقم ہاتھ میں آئے گی، ہم ان کی رقم یاکچھ اوپر دے کر اپنے پلاٹ کا مذکورہ فروخت شدہ حصہ واپس لےلینگے، اس لیے یہ پیشکش قبول کرلی۔

اب ہونا یہ چاہیےتھا کہ ہم پندرہ لاکھ کا نصف یعنی سات لاکھ پچاس ہزار روپے ان سے مذکورہ حصہ کی مدوصول کرتے،لیکن ہم نےخیر سگالی اور احسان کےبدلے میں ان سے چھ لاکھ روپےوصول کئے۔دوسرا نکتہ  اس میں یہ بھی ملحوظ خاطر تھا کہ جتنی رقم ہم ان سے وصول کرینگے،وہی یااس کے کچھ زائد انہیں واپس کرنےمیں ہمیں آسانی بھی رہےگی۔

تمام شرائط طے ہونےکے بعد معاہدہ بیع کو تحریر شکل دی گئی ۔جس کی نقل اس سوالنامہ کےساتھ منسلک ہے۔ یہ واضح رہےکہ معاہدہ بیع کی رو سے مذکورہ فروخت شدہ حصہ تاحال ہمارے زیر انتظام ہے، نیز ہمارے ان عزیز کا 2003ء کے آخر میں انتقال ہوا اور معاہدہ مذکورہ کےبعد وہ عرصہ چار سال زندہ رہے،تاہم انہوں نے مذکورہ خرید کردہ حصہ اپنے نام نہ صرف منتقل نہیں کروایا بلکہ معاہدہ بیع بھی معاہدہ کےگواہ جو ہمارے عزیز ہیں کے پاس اس وجہ سے امانۃ رکھا تا کہ جب کبھی بھی ہماری جانب  سے رقم کا انتظام ہوگیا تو معاہدہ بیع کا کاغذ ہی ضائع کردیاجائےگا۔

ہم اپنےعزیز کی زندگی میں ان سے اپنےپلاٹ کافروخت شدہ حصہ واپس حاصل نہ کرسکےتھے۔اب ہم چاہتےہیں کہ ہم اپنے پلاٹ کامذکورہ فرخت شدہ حصہ واپس لےلیں۔لیکن چونکہ بائع کا2003ء میں انتقال ہوچکاہے۔اور معاملات اب ان کے بیٹوں کےہاتھ میں ہیں،جو شاید مذکورہ حصہ کی واپسی کےلیے بآسانی تیار نہ ہوں،لہذا درج ذیل سوالات میں شرعی رہنمانی درکار ہے۔

                    1)کیا معاہدہ بیع (جس کی نقل منسلک ہے) کی رو سے یہ بیع واقع ہوچکی ہے یا یہ بیع فاسد ہے؟

2)مرحوم کے ساتھ طےشدہ معاہدہ کی رو سے فروخت شدہ حصہ تاحال ہمارے زیر انتظام ہے۔ اگر بیع منعقد ہوچکی ہے تو ٹھیک ،لیکن اگر بیع فاسد ہو تومذکورہ فروخت شدہ حصہ کاجوکرایہ ہم وصول کرکے مرحوم اور ان کےبعد مرحوم کےبیٹوں کو دیتےرہے،اس کا کیا حکم ہے؟

3)مرحوم کےساتھ طےشدہ معاہدہ کےتحت رقم کا انتظام ہونےپر فروخت شدہ مذکورہ حصہ ہم واپس لینےکے حقدار تھے،کیا اب یہ مرحوم کے بیٹوں کی ذمہ داری نہیں کہ وہ ہمارے مطالبہ پر مذکورہ حصہ ہمیں واپس کریں؟

                    4)اگرمرحوم کےبیٹے یہ حصہ ہمیں بہ رضا واپس  کرنےپر تیار نہ ہوں تو شرعا کیا راہ اختیار کی جائے؟

5)اگر مرحوم کےبیٹے مذکورہ حصہ ہمیں واپس کرنے پر راضی ہوں تو کیا انہیں فقط وہی رقم ادا کی جائے گی جو ہم نے مرحوم سے وصول کی تھی یامارکیٹ ویلیو کی شرح سے قیمت ادا کی جائیگی؟

6)اگر مذکورہ حصہ شرعی اعتبار سےمارکیٹ ویلیو کے مطابق واپس حاصل کیاجانا ضروری ہو، تو کیا ہم اس وجہ سے کم قیمت لگانے کے مجاز  ہیں کہ مرحوم کے بیٹوں کو اس ضمن کئی قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کرناہوگا۔جبکہ ہمیں کسی قانونی پیچیدگی کاسامنا کرنے کےبجائے محض معاہدہ بیع کا کاغذ ہی تلف کرناہوگا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

تمام سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہے۔

1)بیع کے درست ہونے کےلیےشریعت نےجن شرائط(ایجاب(Offer) ،قبول(Acceptance)، عاقل، افراز یعنی حدود اربعہ کا تعین،قیمت کامقرر ہونا، اورفریقین کی رضامندی وغیرہ)  کو ملحوظ رکھے ہیں، وہ تمام  شرائط یہاں پائے جارہے ہیں،اس لیے یہ بیع  مکمل ہوچکی ہے۔

2) یہ بیع صحیح اور مکمل ہوچکی ہے ،لہذا جوکرایہ آپ مرحوم کو اس کی حیات میں یاا س کی اولاد کو ادا کرچکےہیں وہ درست ہے اور آپ کا ذمہ فارغ ہوچکا ہے۔

3)صورت مسؤلہ میں یہ فروخت کرنےکاوعدہ تھا اور دیانۃ اس پر وعدہ  پوراکرنالازم ہے، البتہ عدالت کے زریعے اس کو پورا کرنے پرمجبور نہیں کیاجاسکتا۔

4)اگر مرحوم کےبیٹے پلاٹ واپس کرنےپر رضامند نہ ہوں تو ان سےصلح کرلینا چاہیے، البتہ ان پر زور زبردستی کاحق نہیں ہے۔

5) اگر مرحوم کےبیٹے پلاٹ دینےکےلیے رضامند ہوں تو بازار میں مروج قیمتMarket price)  ( پر ہی آپ کوخرید نے حق ہے۔معاہدہ کے شق نمبر 9 میں بھی یہی لکھا ہے کہ فریقین میں سے اگر کوئی 50 فیصد حصہ لینے پر رضامند ہو تو اس وقت مارکیٹ میں جو  قیمت  ہو اسی پر لینے کا مجاز ہوگا۔

  6)  صورت مسؤلہ میں شرعا آپ کو پلاٹ بازار میں مروج قیمتMarket price) ) ہی پر خریدنے کاحق ہے، صرف اس وجہ سے قیمت      میں کمی کرناکہ ان کو قانونی چارہ جوئی کرناہوگی اور آپ کونہیں جائز نہیں ہے،البتہ اگر ورثاء باہمی رضامندی سے قیمت میں کچھ کم کرنا چاہیں توجائز ہے۔

حوالہ جات
البناية شرح الهداية (8/ 198)
ولنا أن ركن البيع صدر من أهله مضافا إلى محله فوجب القول بانعقاده، ولا خفاء في الأهلية والمحلية. وركنه مبادلة المال بالمال، وفيه الكلام، والنهي يقرر المشروعية عندنا لاقتضائه التصور، فنفس البيع مشروع وبه تنال نعمة الملك.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 135)
(أما) شرائط الانعقاد فأنواع: بعضها يرجع إلى العاقد، وبعضها يرجع إلى نفس العقد، وبعضها يرجع إلى مكان العقد، وبعضها يرجع إلى المعقود عليه، (أما) الذي يرجع إلى العاقد فنوعان: أحدهما أن يكون عاقلا، فلا ينعقد بيع المجنون والصبي الذي لا يعقل؛ لأن أهلية المتصرف شرط انعقاد التصرف والأهلية لا تثبت بدون العقل فلا يثبت الانعقاد بدونه۔ والثاني العدد في العاقد فلا يصلح الواحد عاقدا من الجانبين في باب البيع إلا الأب فيما يبيع مال نفسه من ابنه الصغير بمثل۔۔۔۔۔۔وأما الذي يرجع إلى نفس العقد فهو أن يكون القبول موافقا للإيجاب،۔۔۔۔۔في الشرط الذي يرجع إلى مكان العقد وأما الذي يرجع إلى مكان العقد فواحد وهو اتحاد المجلس.۔۔۔۔۔۔ وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع (منها) : أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم، وماله خطر العدم كبيع نتاج النتاج۔۔۔۔۔منھاأن يكون مملوكا،لأن البيع تمليك فلا ينعقد فيما ليس بمملوك كمن باع الكلأ في أرض مملوكة،۔۔۔۔۔(ومنها) أن يكون مقدور التسليم عند العقد، فإن كان معجوز التسليم عنده لا ينعقد۔۔۔ (وأما) الذي يرجع إلى النفاذ فنوعان أحدهما الملك أو الولاية أما الملك.فهو أن يكون المبيع مملوكا للبائع فلا ينفذ بيع الفضولي لانعدام الملك، والولاية لكنه ينعقد موقوفا على إجازة المالك، وعند الشافعي - رحمه الله - هو شرط الانعقاد أيضا حتى لا ينعقد بدونه،۔۔۔۔۔ (منها) أن يكون له مجيز عند وجوده فما لا مجيز له عند وجوده لا تلحقه الإجازة؛ لأن ما له مجيز متصور منه الإذن للحال۔
فقہ البیوع( 2/1137)
علی الوعداو المواعدۃ بالبیع لیس بیعا، ولا یترتب علیہ آثار البیع ،من نقل ملکیۃ المبیع و لا وجوب الثمن ۔واذا وقع الوعد او المواعدۃ علی شراء شیء او بیعہ بصیغۃ جازمۃ وجب علی الواعد دیانۃ ان یفی بہ ، ویعقد البیع حسب وعدہ ولکنہ لایجبر علی ذٰلک قضاء۔۔۔

ضیاء اللہ 

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

13/01/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ضیاء اللہ بن عبد المالک

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب