021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نماز میں قراءۃ مسنونہ کاحکم
68793نماز کا بیاننماز کی سنتیں،آداب اورپڑھنے کا طریقہ

سوال

قرائت کی سنت مقدار کےمتعلق بعض علمائےکرام کی رائےیہ ہے کہ متعین طورپرطوال مفصل یاقصارسےاپنی جگہ یعنی کتب فقہ میں طوال یاقصار کی جومقدار جن نمازوں کےلیےبیان ہوئی ہے،صرف اسی کو پڑھاجائےگا،جبکہ بعض فرماتےہیں کہ پورےقرآن میں سےکہیں سےبھی وہ مقدارپڑھاجائےتوجائزہے،اصل سنت کیاہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 

نماز میں قراءت مسنونہ سےمتعلق فقہاءکرام کےچاراقوال ملتےہیں:

1۔ نماز میں مفصلات سےقراءت مسنون ہےیعنی فجراورظہرمیں طوال مفصل(سورۃ حجرات تاسورۃ بروج) عصر اور عشاء میں اوساط مفصل (سورۃ بروج تا سورۃ البینۃ)اور مغرب میں قصارمفصل (سورۃ بینہ سےآخر قرآن تک)کی قراءت مسنون ہے۔

2۔مختلف فرض نمازوں میں خاص تعداد میں آیات کی تلاوت مسنون ہے۔اس قول کےمطابق قرآن پاک میں کہیں سےبھی فجراورظہر کی دونوں رکعتوں میں سورۃ فاتحہ کےعلاوہ چالیس پچاس آیات اورعصروعشاء کی دونوں رکعتوں میں پندرہ یابیس آیات اور مغرب کی دونوں رکعتوں میں دس آیات پڑھ لےتوسنت ادا ہوجائے گی۔

3۔یہ گزشتہ دونوں اقوال کی تطبیق پرمشتمل ہےیعنی تلاوت تو مفصلات سے کی جائےمگر اتنی آیات پڑھنی چاہیے جتنی آیات کاذکر دوسری روایات میں آیاہے۔

4۔چوتھاقول یہ ہےکہ نماز میں قراءت سےمتعلق کوئی تحدید نہیں ہے،بلکہ اس کادارومدار لوگوں کےذوق اور شوق پرہے۔امام کوان تمام مصالح کی رعایت رکھ کرقراءت کرنی چاہیے۔

درج بالااقوال میں سےپہلےدو اقوال کی آثار واحادیث سےصراحتا تائید ہوتی ہے۔جبکہ تیسرے اورچوتھے قول کی اصل بھی مختلف روایات سےمستنبط ہے۔البتہ پہلاقول متون مشہورہ ،اکثرفقہاء اور اکابرعلماء کرامؒ کا اختیار کردہ ہے، جس کی تائید حضرت عمراور حضرت سلیمان بن یساررضی اللہ تعالی عنھم کےآثار سےہوتی ہے۔جومرفوع کےحکم میں ہیں،نیز نبی کریمﷺ سے منقول متعدد روایات میں ہےکہ آپؐ نےفلاں نماز میں فلاں سورت پڑھی ہے، اس لیے یہ قول راجح معلوم ہوتاہے۔

لہذا نماز میں قراءت کاافضل طریقہ یہ معلوم ہوتاہےکہ مفصلات سےتلاوت کی جائے، لیکن اگر کوئی دیگر  اقوال پرعمل کرتاہے تو اس کی تلاوت کوخلاف سنت بھی نہیں کہاجاسکتا۔

حوالہ جات
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (1/ 129) (وسننها في السفر الفاتحة وأي سورة شاء) لما روي أنه - عليه السلام - «قرأ في صلاة الفجر في سفره بالمعوذتين وقرأ في إحدى الركعتين من العشاء الآخرة بالتين»؛۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (وفي الحضر طوال المفصل لو فجرا أو ظهرا وأوساطه لو عصرا أو عشاء وقصاره لو مغربا) لما روي عن عمر - رضي الله عنه - أنه كتب إلى أبي موسى الأشعري أن اقرأ في الفجر والظهر بطوال المفصل وفي العصر والعشاء بأوساط المفصل وفي المغرب بقصار المفصل؛ ولأن مبنى المغرب على العجلة فكان التخفيف أليق بها والعصر والعشاء استحب فيهما۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 539) (و) يسن (في الحضر) لإمام ومنفرد، ذكره الحلبي، والناس عنه غافلون (طوال المفصل) من الحجرات إلى آخر البروج (في الفجر والظهر، و) منها إلى آخر - لم يكن - (أوساطه في العصر والعشاء، و) باقية (قصاره في المغرب) أي في كل ركعة سورة مما ذكره الحلبي، واختار في البدائع عدم التقدير، وأنه يختلف بالوقت والقوم والإمام. بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 297) وهذا كله ليس بتقدير لازم بل يختلف باختلاف الوقت والزمان وحال الإمام والقوم . فيه أنه ينبغي للإمام أن يقرأ مقدار ما يخف على القوم ولا يثقل عليهم بعد أن يكون على التمام ؛ لما روي عن عثمان بن أبي العاص الثقفي أنه قال { آخر ما عهد إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أصلي بالقوم صلاة أضعفهم } .
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب