021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اجتماعی فنڈ کا مسئلہ
68904ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

! فنڈ کا مسئلہ کچھ یوں  ہے کہ تقریبا 30 یا 40 سال پہلے خاص کر  قبائلی پختونوں نے مل کر ایک اجتماعی فنڈ بنایاہے، جس کو میت فنڈ کہتے ہیں جس کی ترتیب یہ ہے کہ کچھ لوگوں  کو، سب نے مل کر مشیر بنایا ہوا ہے۔ان کے پاس سارے یو اےای  کے ہر شہر میں جنتے  قبائلی ڈیرے یعنی کمرے ہیں وہ  ان کے پاس رجسٹرڈ ہیں، جو اس فنڈ میں اپنی مرضی سے شامل ہونا چاہتا ہے نام لکھواتا ہے ، اب اگر کوئی ان رجسٹرڈ ڈیرے یعنی کمرے  کے  اس فنڈ میں شامل ہونے والے افراد  میں سے کوئی مر جاتا ہے تو کسی جگہ پر 20 اور کسی جگہ پر 10 درہم ،اس فنڈ میں شامل سب  لوگ اپنے کمرے کے سربرا کے پاس جمع کروا دیتے ہیں،  کمرے کا سربرا ہ اپنے کمرے کے رجسٹر ڈلوگو ں کے نام کی لسٹ بنا کر پیسے سمیت مشیروں کو بھیج     دیتا ہے اس ترتیب سے کچھ دنوں میں سارے شہر سے لاکھوں درہم جمع ہو کر مشیروں  تک پہنچ جاتے ہیں۔اب  مشیر حضرات اس رقم میں سے جتنا خرچہ میت پر ہوا ہوتا ہے وہ اور تھوڑے  بہت مزید اخراجات کاٹ کر باقی پیسے میت کے ورثہ ،والد یا بھائی یا ان کے بیٹوں کو دے دیتے  ہیں۔اب اس میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ ان سب ڈیرے  والوں میں سے اگر ایک ڈیرہ  بھی وقت پر مرکزی مشیروں  تک  یہ پیسے نہ پہنچائے  تو  ان پر جرمانہ ہوتا ہے ، ہزار  یا پندرہ سو درہم۔  اگر کوئی شخص  اس فنڈ میں شامل نہیں ہونا چاہتا  تو کمرے کے سربرا ہ یا مرکزی مشیروں کی طرف سے ان پر  کوئی  زور زبردستی نہیں ہوتی   اور کمرے میں بھی رہنے دیتے ہیں ۔کیا ایسے فنڈ میں شریک ہونا درست ہے؟

 جب یہ رقم  رشتہ داروں کے پاس آتی ہے تو  بسا اوقات  رشتے دار  آپس میں پیسے کی تقسیم پر لڑ پڑتے ہیں اورکبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مرنے والے کی جو بیوہ اور چھوٹے بچے ہوتے ہیں، ان کو  کچھ بھی نہیں ملتا ،یا پھر یہ کہ آدھے پیسے میت کے بھائی لوگ غائب کر دیتے ہیں اور تھوڑے بہت ان کو بھی دے دیتے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ آج کل کے ماحول میں %10 بھی کسی پر یہ بھروسہ نہیں ہے کہ وہ یہ پیسے حرام کاموں میں نہ لگائے، وہ اس پیسے پر سودی کاروبار  بھی کر سکتے ہیں اور کوئی حرام کام بھی کر سکتے ہیں۔ لہٰذا  اس صورت حال میں میت سے سوال تو نہیں ہوگا، اسے اس وجہ سے عذاب تو نہیں ہوگا ؟ کیوں کہ وہ اس فنڈ میں شامل ہی اس وجہ سے ہوا تھا بیس تیس سال سے وہ پیسے اس لیے جمع کر رہا تھا، نیت ہی ان کی یہ تھی کہ کل کو اگر میں مر جاتا ہو ں تو یہ لاکھوں روپےمیرے ورثہ کو ملیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جن لوگوں کے مسائل  ایک  نوعیت کے ہوتے ہیں ،وہ آپس میں مل کر ایک  اجتماعی مصرف  قائم کر لیں  اور یہ طے کرلیں   کہ ہم میں سے کسی کو کوئی حادثہ پیش آئے تو اس  میں سے اس کے نقصان کی تلافی کریں گے ۔اسے عربی میں" التأمین التبادلی" اور انگریزی میں ((Mutual Insurance  کہتے ہیں ۔مثلا  کسی کی وفات ہوجانے کی صورت میں میت کی تجہیز و تکفین   کے اخراجات  اور پیچھے خاندان والوں کی مالی مدد وغیرہ ۔بنیادی طور پر تو اس طرح کا مصرف قائم کرنا جائز ہے۔لیکن اگر اس میں  غیر شرعی شرائط ہوں تو  انہیں ختم کرنا ضروری  ہوگا۔مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق جو ساتھی وقت پر   رقم جمع نہ کرائے تو اس پر جرمانہ  عائدکرتے ہیں ،یہ جائز نہیں۔لہٰذا کسی مستند اور معاملات کے تجربہ  رکھنے والے مفتی کی نگرانی میں اس مصرف  کی شرائط طے کرنا چاہییں،تاکہ ثواب کے کام میں عذاب کا خطرہ نہ  رہے۔

وفات کے بعد رقم کی تقسیم پر ہونے والےتحفظات اور حرام کاموں میں استعمال  ہونے کے محض خدشات سے یہ ناجائز نہ ہوگا اور نہ ہی ورثہ کی طرف سے حرام کاموں میں استعمال  پر عطیہ دینے والے لوگوں  کو گناہ ہوگا۔باقی ورثہ کو جو اس مد سے ملتا ہے ،وہ بیوی بچوں اور والدین میں برابر تقسیم ہوگا۔یا پھر جیسے  اصول و ضوابط مقرر کیے جائیں کہ کتنے فیصد رقم کس وارث کو ملے گی ،تو اس کے مطابق تقسیم کی جائے ۔

حوالہ جات
قال شمس الأئمة السرخسي رحمہ اللہ:قال:( الصدقة بمنزلة الهبة في المشاع، وغير المشاع، وحاجتها إلى القبض)، وقد بينا اختلاف ابن أبي ليلى فيها، إلا أنه لا رجوع في الصدقة إذا تمت؛ لأن المقصود بها نيل الثواب  وقد حصل ، وإنما الرجوع عند تمكن الخلل فيما هو المقصود، ويستوي إن تصدق على غني، أو فقير في أنه لا رجوع له فيها. ومن أصحابنا  رحمهم الله  من يقول: الصدقة على الغني والهبة سواء إنما يقصد به العوض  دون الثواب ؛ ألا ترى أن في حق الفقير جعل الهبة والصدقة سواء في أن المقصود الثواب، فكذلك في حق الغني: الهبة والصدقة سواء فيما هو المقصود. ثم له أن يرجع في الهبة فكذلك في الصدقة، ولكنا نقول: ذكره لفظ الصدقة يدل على أنه لم يقصد العوض، ومراعاة لفظه أولى من مراعاة حال المتملك. ثم التصدق على الغني يكون قربة يستحق بها الثواب فقد يكون غنيا يملك نصابا، وله عيال كثيرة، والناس يتصدقون على ؛مثل هذا لنيل الثواب. ألا ترى أن عند اشتباه الحال يتأدى الواجب من الزكاة بالتصدق عليه ولا رهن ولا رجوع فيه بالاتفاق ،فكذلك عند العلم بحاله: لا يثبت له حق الرجوع عليه.(المبسوط للسرخسی رحمہ اللہ:12/92)
و فی الفتاوی الھندیۃ:الباب الثاني عشر في الصدقة . الصدقة بمنزلة الهبة في المشاع وغير
المشاع وحاجتها إلى القبض، إلا أنه لا رجوع في الصدقة، إذا تمت ويستوي إن تصدق على غني أو فقير في أنه لا رجوع فيها ومن أصحابنا رحمهم الله تعالى من يقول الصدقة على الغني والهبة سواء، كذا في المحيط.إذا تصدق على رجل بدار ليس له أن يرجع، سواء كان المتصدق عليه فقيرا أو غنيا، كذا في المضمرات.ولو دفع إلى رجل ثوبا بنية الصدقة فأخذه المدفوع إليه ظانا أنه وديعة أو عارية فرده على الدافع لا يحل للدافع أخذه؛ لأنه قد زال عن ملكه حين قبضه الرجل فإن أخذه لزمه رده، كذا في السراج الوهاج.الهبة لا تصح إلا بقبول بالقول واستحسن في صحة الصدقة من غير قبول بالقول لجريان العادة في كافة الأعصار بالتصدق على الفقراء من غير إظهارهم القبول بالقول، كذا
في القنية.(الفتاوی الھندیۃ:4/406(
وفیۃ أیضا:الجيران يأخذون الخمیر فيما بينهم ويدفعون بدله مجازفة، فإنه يجوز، كذا في جواهر الفتاوى.(الفتاوی الھندیۃ: 5/341      )         
و روی الإمام البخاری عن أبي موسى رضی اللہ عنہ ، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: إن الأشعريين إذا أرملوا في الغزو، أو قل طعام عيالهم بالمدينة، جمعوا ما كان عندهم في ثوب واحد، ثم اقتسموه بينهم في إناء واحد بالسوية، فهم مني وأنا منهم. (الجامع الصحیح للبخاری:2486)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عثمان یوسف

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب