021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
Islamic Goat Farmingکے ساتھ) بکریوں کی افزائش (کاروبار کرنے کا حکم اسلامک گھوٹ فارمنگ کے ساتھ کاروبار کرنے کا حکم
69146جائز و ناجائزامور کا بیانجانوروں کے مسائل

سوال

ایک کمپنی ہے  Islamic Goat farming کے نام سے،  وہ لوگ مشترکہ فارمنگ کے نام پر لوگوں سے انویسٹمنٹ لیتے ہیں جس سے بکریوں  کی افزائش کرائی جاتی ہے۔پورا طریقہ کار اور شرائط درج ذیل ہیں:فریق ثانی یعنی گاہک ،فریق اول یعنی کمپنی کو   فی یونٹ (بکری+بچہ) خریداری کے لیے35000 ایک سال کے لیے دیتی ہے۔ادائیگی کے 10،15 دن کے اندر کمپنی جانور خرید کر  اپنے فارم میں داخل کرے گی۔بکریوں کو باقاعدہ ٹیگ الاٹ کرکے  ان کی تصویر/ویڈیو  فریق دوم  کو واٹس ایپ کرے گا۔اس ایک سال کی  مدت پوری ہونے پر  باہمی رضامندی کے ساتھ معاہدہ ختم یا اگلی مدت کے لیے  کیا جاسکتا ہے۔

35000 میں سے 20000 بکری اور بچے کی قیمت اور 15000 پرورش،چارہ اور میڈیکل سروس چارجز شامل ہوں گے۔مزید یہ کہ ایک سال بعد  کمپنی اس مال کو منڈی میں فروخت کرکے فریق دوم   کو رقم ادا کرے گا  جس سے ان شاء اللہ تقریبا 100 فیصد تک نفع حاصل ہونے کی امید ہے۔

معاہدہ کی مزید شرائط:

(1)مال کی حفاظت کی تمام تر ذمہ داری کمپنی  کی ہوگی۔

(2)بکری یا بچے کی ناگہانی موت کی صورت میں نقصان فریق ثانی یعنی گاہک کا ہوگا لیکن کمپنی کو اس کا واضح ثبوت دینا ہوگا۔

(3)وقت ،حالات اور مارکیٹ کی بدلتی ہوئی صورت حال کی بناء پر منافع 100 فیصد  سے کم  بھی ہوسکتے ہیں۔

(4)فریق ثانی اپنے مال کو دیکھنے کے لیے  باہمی سہولت کے مطابق  فارم وزٹ بھی کرسکتا ہے۔

(5)کسی مجبوری یا شدید ضرورت کے باعث  فریق ثانی  ایک سال سے پہلے  اپنے مال کو اپنی مرضی کی قیمت پر فروخت بھی کرسکتا ہے،البتہ بکریوں کی دیکھ بھال ،پرورش ،حفاظت اور سروس چارجز  کی مد میں 50 فیصد اخراجات یعنی 7500 روپے کٹوتی   ہوگی۔

وضاحت:کمپنی سے استفسار کرنے پر درج ذیل باتیں سامنے آئیں:

جتنے بھی بچے پیدا ہوں گے چاہے ایک یا ایک سے زائد وہ گاہک اور کمپنی کے درمیان نصف نصف  تقسیم

ہوں گے اور اگر کوئی مزید بچہ پیدا نہیں ہوتا تو پھر یہ ایک بکری اور اس کا بچہ جس پر عقد ہوا ہے  یہ مالک ہی  کے شمار ہوں گے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس کاروبار میں کئی عقد ہوتے ہیں جنکے احکام درج ذیل ہیں:

(1) کمپنی جبمعاملہ کرنے والے شخص کو جانوروں کا پیکج بیچتی ہےاس وقت کمپنی کے پاس جانور موجود ہی نہیں ہوتےبلکہکمپنی رقم لے لینے کے بعد جانور ڈھونڈتی ہے جس میں 10سے 15 دن لگتے ہیں ،تو گویا یہ معدوم کی بیع ہے جو کہ جائز نہیں۔نیزجانور بیچنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا عقد "جانوروں کو بٹائی پر دینا"بھی کیا جارہا ہوتا ہے ۔جب کہ ایک ہی عقد میں دو عقد جمع کرنایعنیبیع اور جانوروں کو بٹائی پر دینا جائز نہیں۔لہٰذا اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ پہلے کمپنی کے پاس جانور موجود ہوں اس کے بعد وہ اس کو آگے فروخت کے لیے پیش کرے یادوسراحل اس کا یہ ہے کہ فریق ثانی یعنیگاہک،کمپنی کو مطلوبہ صفات کے جانور خریدنے کے لیے اپنا وکیل بنادے جب کمپنی گاہک کے لیے جانور خرید لے ، تو گاہک ان جانوروں کو فارم میں رکھنے کی اجازت دے دے اور جانوروں کو بٹائی پر دینے کا عقد بھیعلیحدہ سے کیا جائے۔

(2) موجودہ صورت میں کمپنیجو جانور بٹائی پر لیتی ہے یہ معاملہحنفیہ کے اصول کے مطابق جائز نہیںلہٰذا احناف کے مذہب کے مطابق اس کی متبادل صورت پر عمل کر لیا جائے، وہ یہ ہے کہ کمپنی اس جانور کی ایک متعین قیمت لگا کر متعلقہ شخص کو جانور کا نصف حصہ فروخت کر دے یا کمپنی اور پیکج ہولڈر مل کر جانور خریدیں ۔ اس طرح کرنے سے  یہ کمپنی اور معاملہ کرنے والا شخص  اس جانور کے آدھے آدھے  حصے کےمالک بن جائیں گے۔اس کے بعد  کمپنی اس جانور کی  پرورش کر ے،چارے وغیرہ اور دیکھ بھال پر جو خرچہ آئے ، وہ  ملکیتی حصوں کے مطابق آدھا آدھا برداشت کرتے رہیں ۔اس صورت میں جب بھی کمپنی  اور پیکج ہولڈر اس شرکت کو ختم کریں گے تو    جانور اور ان کے بچے کمپنی  اور پیکج ہولڈر کے درمیان نصف  نصف تقسیم ہوں گےاور دونوں فریق جب چاہیں شرکت ختم کرکے الگ ہوسکتے ہیں اور اپنا نصف حصہ ایک دوسرے کو یا کسی فریق ثالث کو بھی  بیچ  سکتے ہیں۔

البتہ اگر اس متبادل صورتپر عمل کرنے میں شدید مشکل ہو تو بعض حنابلہ کے نزدیک بٹائی کا یہ معاملہجائز ہے،اور چونکہ غربت، پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ ہے ، گاؤں دیہاتوں میں غیر ملکی این جی اوز آکر غریب لوگوں کی غربت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو مختلف پیکج دیتے ہیں اور اپناایجنڈا بھی چلاتے ہیں، جس سے لوگوں کے ایمان تک داؤ پر لگ جاتے ہیں ،اور ساتھ ہی ساتھآج کل دیہاتی علاقوں میں جانوروں کو بٹائی پر دینا ابتلائے عام بھیہے،لہذا ان تمام وجوہات کی بنا پرتوسعاً مذہب حنابلہ پر عمل کیا جا سکتا ہے۔بہتر ہے  کمپنی مکمل صورت مقامی علماء کے سامنے یا مجلس فقہی میں پیش کرکے اس  قول پر عمل کی اجازت لے لے۔

(3) معاہدہ پورا ہونے پر جو جانور مالک کے ہوں گے وہ چاہے تو کمپنی کو بیچے یا کسی فریق ثالث کو البتہ کمپنی کے ذریعے سے بیچنے کا وعدہ کیا جاسکتا ہےلیکن یہ شرط نہیں لگائی جاسکتی کہ جانور کمپنی ہی بیچے گی۔

حوالہ جات
 فی الفتاوی الھندیۃ: وأن يكون الربح معلوم القدر، فإن كان مجهولا ،تفسد الشركة، وأن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة، لا معينا، فإن عينا عشرة أو مائة أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة.        (الفتاوی الھندیۃ:2/302)
و قال العلامۃ الزیلعی رحمہ اللہ:وتفسد، إن شرط لأحدھما دراھم مسماۃ من الربح؛ لأنہ شرط یوجب انقطاع الشرکۃفی بعض الوجوہ ،فلعلہ لا یخرج إلا القدر المسمی لأحدھما من الربح.(تبیین الحقائق:4/248)
وفی الدر المنتقی مع  مجمع الأنھر:و کون الربح بینھما مشاعا، فتفسد إن شرط لأحدھما عشرۃ دراھم مثلا.(الدرالمنتقی :3/446)
قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ:وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه، فأنواع :منها : أن يكون
موجودا، فلا ينعقد بيع المعدوم.(بدائع الصنائع:5/138)
قال العلامۃ المرغینانیرحمہ اللہ:(الإجارة: عقد على المنافع بعوض) لأن الإجارة في اللغة بيع المنافع، والقياس يأبى جوازه؛ لأن المعقود عليه المنفعة وهي معدومة، وإضافة التمليك إلى ما سيوجد لا يصح إلا أنا جوزناه لحاجة الناس إليه، وقد شهدت بصحتها الآثار وهو قوله عليه الصلاة والسلام: "أعطوا الأجير أجره قبل أن يجف عرقه" وقوله عليه الصلاة والسلام: "من استأجر أجيرا فليعلمه أجره" وتنعقد ساعة فساعة على حسب حدوث المنفعة، والدار أقيمت مقام المنفعة في حق إضافة العقد إليها ليرتبط الإيجاب بالقبول، ثم عمله يظهر في حق المنفعة ملكا واستحقاقا حال وجود المنفعة. (ولا تصح حتى تكون المنافع معلومة، والأجرة معلوم) لما روينا، ولأن الجهالة في المعقود عليه وبدله تفضي إلى المنازعة كجهالة الثمن والمثمن في البيع.                        
  1.                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                               
و فی الفتاوی الھندیۃ:دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة وعلى صاحب البقرة للرجل أجر قيامه وقيمة علفه إن علفها من علف هو ملكه لا ما سرحها في المرعى ويرد كل اللبن إن كان قائما، وإن أتلف فالمثل إلى صاحبها لأن اللبن مثلي، وإن اتخذ من اللبن مصلا فهو للمتخذ ويضمن مثل اللبن لانقطاع حق المالك بالصنعة والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما وكذا لو دفع الدجاج على أن يكون البيض بينهما أو بزر الفيلق على أن يكون الإبريسم بينهما لا يجوز والحادث كله لصاحب الدجاج والبزر.(الفتاوی الھندیۃ:4/446)
وقال العلامۃ عبد اللہ بن محمود الموصلی:الشركة نوعان: شركة ملك، وشركة عقد، فشركة الملك نوعان: جبرية، واختيارية والاختيارية؛ أن يشتريا عينا، أو يتهبا، أو يوصى لهما فيقبلان، أو يستوليا على مال، أو يخلطا مالهما، وفي جميع ذلك كل واحد منهما أجنبي في نصيب الآخر، لا يتصرف فيه إلا بإذنه ؛لعدم إذنه له فيه، ويجوز بيع نصيبه من شريكه في جميع الوجوه.
(الاختیار لتعلیل المختار:3/12)
                        وقال أیضا:وقال أصحابنا: إذا قال وكلتك في كذا فهو وكيل في حفظه بقضية اللفظ، ولا يثبت ما زاد عليه إلا بلفظ آخر، فإن الموكل فوض أمره إلى الوكيل واعتمد عليه ووثق برأيه؛ ليتصرف له التصرف الأحسن، وكل ذلك يبتنى على الحفظ وهو مشروع بالكتاب، وهو قوله تعالى: {فابعثوا أحدكم بورقكم هذه إلى المدينة} [الكهف: 19] وبالسنة، وهو ما صح ،أنه  صلى الله عليه وسلم  وكل بالشراء عروة البارقي، وفي رواية أخرى: حكيم بن حزام، ووكل في النكاح أيضا عمرو بن أمية الضمري، وعليه تعامل الناس من لدن الصدر الأول إلى يومنا من غير نكير، ولأن الإنسان قد يعجز عن مباشرة بعض الأفعال بنفسه فيحتاج إلى التوكيل، فوجب أن يشرع دفعا للحاجة.(الاختیار لتعلیل المختار:2/156)

٫٫٫٫

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عثمان یوسف

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب