69027 | طلاق کے احکام | طلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان |
سوال
میرا نام عاصمہ ہے دختر ہدایت خان ہےمیری شادی عالمگیر شاہ ولد شاہ ولی ولد زرگل کلے تنگی چارسدہ میں 2011/11/11کو ہوئی ،روز اول سے شوہر کی مجھ سے بلاوجہ نفرت ، ناچاکی اوربات بات پر لڑائی جھگڑا معمول کی بات تھی۔2017میں بلاوجہ ماں کے کہنے پر مجھے گھر سے نکالا،بعد میں میرے والد مرحوم ہدایت خان کے کزن احمد خان ولد محمد علی میری والدہ کے کہنے پر احمد خان میرے شوہر سے ملنے گیا تاکہ راضی نامہ کراسکے میرے شوہر نے اس کو کہا کہ اس کے ساتھ میراگھر نہیں بن سکتا اوروہ میری طرف سے آزاد ہے ،اس کا رشتہ جہاں پر کروانا چاہتے ہوکرسکتے ہو،میری طرف سے وہ آزاد ہے ۔وہ واپس آیا اورمجھے اورمیری ماں کو ساراواقعہ سنا یا، اس کے بعد احمد خان ولد محمد علی نے کئی مرتبہ اپنے موبائل نمبر: 03449105020سے میرے شوہر کو کال کی اورمنانے کی کوشش کرتارہا مگر باربار وہاں سےیہی جواب ملاکہ یہ مجھ سے آزاد ہے اورجہاں چاہو اس کا رشتہ کروادو،میرے والدین نے بھی باربار کالز کئے مگر اس نے کہا کہ یہ گھر میں نہیں بنانا چاہتا،اس سلسلے میں میں نے فیملی کورٹ میں مقدمہ دائرکیاجس کے جوابِ دعوی میں میرے شوہرنے مجھ پر سنگین الزامات لگائے یہاں تک کہ میری ماں کو بھی اپنے الزامات کا نشانہ بنایا ہے۔ ان حالات میں مجھے کیاکرنا چاہیے؟ میرا تیسراسال ہے کہ میں اپنی بیوہ ماں کے گھر پر ہوں، کیا یہ رشتہ نبھانا جائز ہے یا نہیں؟ عاصمہ دختر ہدایت خان
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
یہ الفاظ کہ ,, وہ میری طرف سے آزاد ہے اس کا رشتہ جہاں پر کروانا چاہتے ہو کرواسکتے ہو ،، ہمارے عرف میں صریح طلاق کے لئے استعمال ہوتے ہیں، لہذا اس جملہ کے استعمال سے ایک طلاق رجعی واقع ہوئی ہے ۔ اس کے بعد دوبارہ جب اس جملے کا تکرارہوا ہے تو اگراس سے شوہر کا مقصد اس طلاق کی خبر دینا ہے نئی طلاق مراد نہیں جیسا کہ بظاہر ایسا ہی ہے،تو اس تکرار سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے ۔اگر اس عرصہ میں عدت تین ماہواری گذر چکی ہے تودونوں کا نکاح ختم ہوگیا ۔ کہیں دوسری جگہ نکاح کرنا آپ کے لئے جائز ہے ۔ اسی شوہر سے ازدواجی تعلق بحال کرنے کے لئے اس سے دوبارہ نکاح صحیح نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں ضروری ہے ،اس کے بغیر دونوں کے لئےمیاں بیوی کی حیثیت سے اکٹھے زندگی گذارنا جائز نہیں ہے۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 299) قوله سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري اهـ وقد صرح البزازي أولا بأن: حلال الله علي حرام أو الفارسية لا يحتاج إلى نية، حيث قال: ولو قال حلال " أيزدبروي " أو حلال الله عليه حرام لا حاجة إلى النية، وهو الصحيح المفتى به للعرف وأنه يقع به البائن لأنه المتعارف ثم فرق بينه وبين سرحتك فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت، لكن لما غلب استعمال حلال الله في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن ولولا ذلك لوقع به الرجعي.
احسان اللہ شائق
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
12/07/1441
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | احسان اللہ شائق | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |