021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قبر پر مٹی ڈالنے سے پہلے بیر کے درخت کی شاخ ڈالنا
69246جنازے کےمسائلمردے کو غسل دینے اوردفنانے کا بیان

سوال

(1) بعض حضرات  جب میت کو قبر  میں اتار چکے ہوتے ہیں تو لحد کو اینٹوں سے بند کرنے کے بعد  مٹی ڈالنے سے پہلےبیر کے درخت کی شاخ ڈالتے ہیں تو کیا شریعت میں اس کی کوئی اصل ہے؟

(2) میت کی تدفین کا شرعی طریقہ بتادیں  کہ میت کے ساتھ  قبر میں اور کیا چیزیں ڈالی جانی چاہییں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)   قبر پر  مٹی ڈالنے سے پہلےبیر کے درخت کی شاخ ڈالنے کی شریعت میں کوئی اصل  نہیں ۔تالیفات رشیدیہ میں حضرت رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:اس کا ضروری سمجھنابدعت ہےاور بیری کی خصوصیت میں مشابہت روافض ہے،لہٰذا اس کوترک کرنا چاہئے اور اس کی کچھ اصل نہیں۔(صفحہ:240)

(2) تدفین کا طریقہ یہ ہے کہ نماز جنازہ کے بعد  جنازہ کو پہلے قبلہ کی سمت قبر کے کنارے اس طرح رکھیں کہ قبلہ میت کے دائیں طرف  ہو۔ پھر اتارنے والے  قبلہ رو کھڑے ہوکر میت کواحتیاط سے اٹھا کر قبر میں رکھ دیں۔ قبر میں رکھتے وقت "بسم اللہ  وباللہ و علی ملۃ رسول اللہ" پڑھیں،  میت کو قبر میں  رکھ کر داہنے پہلو پر اس کوقبلہ رو کردیں، صرف منہ قبلہ کی طرف کردینا کافی نہیں، بلکہ پورے بدن کو اچھی طرح کروٹ دیں۔قبر میں رکھنے کے بعد کفن کی وہ گرہ ، جو کفن کھل جانے کے خوف سے دی گئی تھی، کھول دی جائے۔جب میت کو قبر میں رکھ دیں ، تو قبر اگر لحد ہے تو اسے کچی اینٹوں اور نرکل وغیرہ سے بند کردیں اور اگر قبر شق ہے تو اس کے اوپر تختے رکھ کر بند کردیا جائے۔ تختوں وغیرہ کے درمیان جوسوراخ  رہ جائیں وہ بھی گیلی مٹی ، کچے ڈھیلوں سے بند کردیں۔ اس کے بعد مٹی ڈالنا شروع کردیں۔مٹی ڈالتے وقت مستحب یہ ہے کہ سرہانے کی طرف سے ابتدا کی جائے اور ہر شخص تین مرتبہ اپنے دونوں ہاتھوں میں مٹی بھر کر قبر میں ڈال دے  اور پہلی مرتبہ ڈالتے وقت کہے" منھا خلقناکم" اور دوسری مرتبہ کہے " وفیها نعیدکم" اور تیسری مرتبہ کہے " ومنها نخرجکم تارۃ أخری".

قبر میں خوشبوں چھڑکنا ثابت ہے ، البتہ قبر میں میت رکھ کر میت پر عرق گلاب چھڑکنا بدعت ہے۔

 

حوالہ جات
قال العلامة الطحطاوي رحمه الله:قوله: (ويجعل الحنوط) استحبابا ، وكذا يوضع في القبر؛ لأنه صلى الله عليه وسلم فعل ذلك بابنه إبراهيم، أبوسعود عن الحموي عن الروضة. (حاشية الطحطاوي على الدر المختار:3/62) قال العلامة الطحطاوي رحمه الله: وذكر ابن الحاج في المدخل: أنه ينبغي أن يجتنب ما أحدثه بعضهم من أنهم يأتون بماء الورد، فيجعلونه على الميت في قبره، فإن ذلك لم يرو عن السلف رضي الله عنهم ، فهو بدعة. قال: ويكفيه من الطيب ما عمل له، وهو في البيت ، فنحن متبعون لا مبتدعون ، فحيث وقف سلفنا وقفنا . (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح: 608) قال العلامة علاء الدين الحصكفي الحنفي رحمه الله:(و) يستحب أن (يدخل من قبل القبلة)، بأن يوضع من جهتها، ثم يحمل، فيلحد (و) أن (يقول واضعه: بسم الله، وبالله، وعلى ملة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ويوجه إليها) وجوبا، وينبغي كونه على شقة الأيمن، ولا ينبش ليوجه إليها، (وتحل العقدة)للاستغناء عنها ، (ويسوي اللبن عليه، والقصب لا الآجرّ) المطبوخ والخشب لو حَوله، أما فوقه فلا يكره.ابن ملك. وقال أيضا: (ويهال التراب عليه، وتكره الزيادة عليه) من التراب ؛لأنه بمنزلة البناء، ويستحب حثيه من قبل رأسه ثلاثا،وجلوس ساعة بعد دفنه لدعاء وقراءة بقدر ما ينحر الجزور ويفرق لحمه.(ولا بأس برش الماء عليه)؛ حفظا لترابه على الاندراس (ولا يربع)؛ للنهي (ويسنم) ندبا. ( الدر المختار: 122)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب