021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عمرہ کرنے کے بعد مدینہ سے دوبارہ حرم جانا
69350حج کے احکام ومسائلعمرہ کے مسائل

سوال

کئی معتمرین سفری نظم کے تحت ایک عمرہ کرچکے ہیں، لیکن مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ اور پھر مکہ مکرمہ سے واپس اپنے ملک آناہوتاہے،اس نظم کو حکومتی قوانین کی وجہ سےتبدیل نہیں کیاجاسکتا،جیسا  پیکج ہوتاہےویسا ہی کرناپڑتاہے، کئی معتمرین نے مسجد علی رضی اللہ عنہ (ذی الحلیفہ)سے احرام باندھا ، لیکن مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد حکومت  نےعمرہ نہیں کرنے دیا،جبکہ فلائٹ کے اوقات میں ردوبدل  تقریباناممکن ہے،اس صورتحال میں ان کے لئے کیاحکم ہے؟کیاان پر عمرہ کی قضاءلازم ہوگی؟ جبکہ یہ حضرات جدہ تامکہ سفر میں اس سے قبل پیکج کے مطابق ایک عمرہ کرچکے ہیں۔ نیز بعض لوگوں نے ابھی تک مدینہ سے آتے ہوئے احرام نہیں باندھا، ان کے لیے کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جو لوگ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آتے ہوئے احرام باندھ چکے ہیں اور ان کو عمرہ کرنے سے روک دیا گیا ہے، ان کے لیے حکم یہی ہے کہ حرم میں جانور ذبح کروانے کے بعد  احرام کھولیں  اور پھر آئندہ زندگی میں کسی وقت عمرہ کی قضاء کر لیں۔ جیسا کہ جواب نمبر2 میں تفصیل گزر چکی ہے۔ البتہ جن لوگوں نے ابھی تک احرام نہیں باندھا اور وہ پہلے عمرہ بھی کر چکے ہیں اور اب ان کو حکومتی نظم کے مطابق  حرمِ مکہ لازمی جانا  ہے تو  ایسے  لوگوں کے لیے  درج ذیل دو  صورتیں ہیں:

پہلی صورت: اگر ممكن ہو تو پہلے اپنے لیے حِل(حرم اور میقات کا درمیانی علاقہ) میں کوئی حاجت سوچیں، خواہ وہ کسی سے بامقصد ملاقات ہی ہو اور پھر اس حاجت کو پورا کرنے کے لیے حل میں کسی جگہ ٹھہرنے کا ارادہ کر لیں اور کچھ دیر مثلا: ایک دن یا ایک رات وغیرہ ٹھہر کر آگے حرم کی طرف تشریف لے جائیں، اس صورت میں جب یہ لوگ پہلے حل میں قیام کریں گے تو یہ شرعاً حلی(ان لوگوں میں سے ہوں جائیں گے جو حرم اور میقات کے درمیانی علاقوں میں  رہتے ہیں) بن جائیں گے اور اہلِ حل کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ بغیر احرام کے مکہ مکرمہ جا سکتے ہیں۔ لہذا ایسی صورت میں ان لوگوں پر احرام باندھنا ضروری نہیں ہوگا اور  حرم میں بغیر احرام  کےجانے کی وجہ سے دم اور عمرہ کی قضاء بھی لازم نہیں ہو گی۔البتہ یہ بات یاد رہے کہ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے حِل کی نیت کرنے کا اعتبار نہیں ہو گا، بلکہ حِل کا قصدِ اوّلی یعنی کسی حاجت کے پیشِ نطر پہلے حل کے علاقے میں باقاعدہ ٹھہرنے کی نیت ہو اور پھر اس کے بعد حرم میں جانے کا ارادہ ہو۔

الأصل المعروف بالمبسوط للشيباني (2/ 519) إدارة القرآن والعلوم الإسلامية - كراتشي :

كوفي أراد بستان بني عامر لحاجة ثم بدا له بعد ما قدم البستان  أن يحج فأحرم من البستان فلا شيء عليه وإن أراد أن يدخل مكة بغير إحرام لحاجة فله ذلك۔

 

 

 

 

تقریرات الرافعی علي ردالمحتار(2/169) ايچ ايم سعيد:

(قوله لکن ینافیه قولهم "ثم بدا له دخول مکة" الخ) یندفع الإشکال فی هذه المسألة بأن المجوز لدخول مکة غیر محرم أحد أمرین:- (1) الأول أن یقصد الحل لحاجة ثم یبدو له دخول مکة، وهذا ما ذکره فی الکافی واللباب و البدائع. (2) و الثانی أن یقصد دخول الحل قصدًا أولیًا مع قصد دخول مکة قصدًا ضمنیًا، و هو ما أشار له فی البحر وذکره فی شرح اللباب، وهو مرادهم بالحیلة. و من ذکر القسم الأول لم ینف کفایة القسم الثانی، فیعمل بکلا النصین، تأمل.

دوسری صورت: حضراتِ شافعیہ کے مذہب پر عمل کرلیں، یعنی عمرہ کی نیت نہ کریں اور بغیر احرام کے حرم میں داخل ہو جائیں، کیونکہ  فقہائے شافعیہ رحمہم اللہ کے نزدیک جو شخص پہلے فرض حج اور عمرہ کر چکا ہو اور اب وہ حج اور عمرہ کے ارادہ کے بغیر اپنی کسی ضرورت کے پیشِ نظر حرم شریف میں داخل ہونا چاہے تو اس میں حضراتِ شافعیہ رحمہم اللہ کے تین قول ہیں:

پہلا قول:  اگر یہ شخص کسی ظالم کے ظلم یا کسی درندے کے خوف سے اپنی جان بچانے کے لیے حرم میں داخل ہو تو اس پر دم اور عمرہ وغیرہ کوئی چیز لازم نہیں۔

دوسرا قول: اگر یہ شخص تجارت یا مریض کی عیادت یا کسی سے ملاقات  وغیرہ  (مطلب یہ کہ اس کام  کے لیے بار بار نہ جانا پڑتا ہو) کی غرض سے جائے تو اس میں حضراتِ شافعیہ رحمہم اللہ کے دو قول ہیں: پہلا قول یہ کہ اس پر حج یا عمرہ کا احرام باندھنا لازم ہے۔ اس قول کو علامہ بغوی، علامہ مسعودی ، علامہ ابن القاضی اور بعض دیگر شوافع حضرات رحمہم اللہ نے صحیح قرار دیاہے، بعض حضرات نے اس قول کو "اشہر" بھی کہا ہے۔ دوسرا قول یہ کہ احرام باندھنا لازم نہیں، بلکہ صرف مستحب ہے، لہذا اگر  یہ شخص بغیر احرام کے حرم میں داخل ہو گیا تو اس پر کچھ بھی لازم نہیں ہو گا۔اس قول کو امام غزالی، امام ابومحمد جوینی اور الشیخ ابو حامد وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہے، اس کی تفصیل المہذب للشیرازی، المجموع للنووی اور امام ابو الحسین یحی بن ابوالخیر (المتوفى: 558ھ) کی البیان فی مذہب الامام الشافعی رحمہ اللہ میں موجود ہے۔

تیسرا قول: اس کو کسی ذاتی  ضرورت وحاجت کی وجہ سے باربار حرم میں آنا جانا پڑے،  جیسے لکڑیاں چننا اور گھاس کاٹنا وغیرہ۔اس صورت میں بھی حضراتِ شافعیہ رحمہم اللہ کے نزدیک بغیر حج اور عمرہ کے احرام کے حدودِ حرم میں داخل ہونا جائز ہے۔

سوال میں ذکر کی گئی صورت دوسرے قول کے تحت داخل ہوتی ہے، جس میں دو قول ہیں اور دونوں طرف فقہائے شافعیہ رحمہم اللہ کی بڑی تعداد موجود ہے اور دونوں قولوں کی تصحیح کی گئی ہے، البتہ اکثر حضرات نے دوسرے قول کو صحیح قرار دیا ہے، اسی لیے علامہ وہبة الذحیلی شافعی رحمہ اللہ نے "الفقہ الاسلامی وادلتہ" ميں  اسی قول کو اصح کہا ہے، اس لیے مجبوری کے پیشِ نظر حنفی شخص کے لیے شافعیہ کے اس قول کو لینے کی گنجائش ہے، لہذا جو لوگ  پہلے عمرہ کر چکے ہیں وہ مذہب شافعی پر عمل کرتے ہوئے بغیر احرام  کے حرم میں داخل ہو سکتے ہیں اور ان پر دم اور عمرہ کی قضاء  لازم نہیں ہو گی۔نیز بغیر احرام کے حرم جانے کے سلسلہ میں مالکیہ کا مذہب بھی یہی ہے کہ اس پر عمرہ کی قضاء وغیرہ لازم نہیں، البتہ اللہ کے حکم کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے توبہ اور استغفار کرنا لازم ہو گا۔

یہ بھی یادر ہے کہ جس شخص نے زندگی میں پہلے عمرہ نہ کیا ہو اس کے لیے شافعیہ اور مالکیہ کے مذہب پر عمل کرنا جائز نہیں، کیونکہ شافعیہ کے نزدیک یہ گنجائش صرف اس شخص کے لیے ہے  جو پہلے اپنا فرض عمرہ ادا  کر چکا ہو اور مالکیہ کے نزدیک اگرچہ یہ گنجائش سب کے لیے ہے، خواہ پہلے عمرہ کیا ہو یا نہ، مگر چونکہ ان کے بعض فقہائے کرام رحمہم اللہ نے زندگی میں ایک مرتبہ عمرہ کو سنت واجبہ اور بعض نے سنت مؤكده قرار ديا ہے، اس لیے ان لوگوں کے لیے احتیاط اسی میں ہے کہ حنفیہ کے مذہب پر عمل کرتے ہوئے دم دے کرحلال ہو جائیں اور پھر بعد میں عمرہ کی قضاء کر لیں۔

حوالہ جات
المجموع شرح المهذب (7/ 11) دار الفكر،بيروت:
(وأما) حكم المسألة فقال أصحابنا إذا حج واعتمر حجة الإسلام وعمرته ثم أراد دخول مكة لحاجة لا تتكرر كزيارة أو تجارة أو رسالة أو كان مكيا مسافرا فأراد دخولها عائدا من سفره ونحو ذلك فهل يلزمه الإحرام بحج أو عمرة فيه طريقان:
(أحدهما) أنه مستحب قولا واحدا حكاه القاضي أبو الطيب في المجرد في آخر باب مواقيت الحج عن أبي موسى المروزي وقطع به سليم الرازي في كتابه الكافية وحكاه أيضا الرافعي وآخرون (وأصحهما) وأشهرهما فيه قولان: (أحدهما) يستحب ولا يجب (والثاني) يجب ودليل القولين في الكتاب واختلفوا في أصحهما فصحح ابن القاص والمسعودي والبغوي وآخرون الوجوب وصحح الشيخ أبو حامد وأصحابه والشيخ أبو محمد الجويني والغزالي والأكثرون الاستحباب وصححه أيضا الرافعي في المحرر قال البندنيجي وهو نص الشافعي في عامة كتبه۔
المهذب في فقة الإمام الشافعي للشيرازي (1/ 358) دار الكتب العلمية،بيروت:
ومن حج واعتمر حجة الإسلام وعمرته ثم أراد دخول مكة لحاجة نظرت فإن كان لقتال أو دخلها خائفاً من ظالم يطلبه ولا يمكنه أن يظهر لأداء النسك جاز أن يدخل بغير إحرام لأن النبي صلى الله عليه وسلم دخل مكة يوم الفتح بغير إحرام لأنه كان لا يأمن أن يقاتل ويمنع النسك وإن كان دخوله لتجارة أو زيارة ففيه قولان: أشهرهما أنه لا يجوز أن يدخل إلا بحج أو عمرة لما روى ابن عباس رضي الله عنهما قال: لا يدخل أحدكم مكة إلا محرماً ورخص للحطابين والثاني أنه يجوز لحديث الأقرع بن حابس وسراقة بن مالك وإن كان دخوله لحاجة تتكرر كالحطابين والصيادين جاز بغير نسك لحديث ابن عباس ولأن في إيجاب الإحرام على هؤلاء مشقة فإن دخل بتجارة وقلنا إنه يجب عليه الإحرام فدخل بغير إحرام لم يلزمه القضاء لأنا لو ألزمناه القضاء لزمه لدخوله للقضاء قضاء ولا يتناهى قال أبو العباس بن القاص: فإن دخل بغير إحرام ثم صار حطاباً أو صياداً لزمه القضاء لأنه لا يلزمه للقضاء قضاء.
البيان في مذهب الإمام الشافعي (4/ 14) أبو الحسين يحيى بن أبي الخير بن سالم العمراني اليمني الشافعي (المتوفى: 558ھ) دار المنهاج – جدة:
[مسألة دخول مكة لغير الحج] ومن أراد دخول مكة لغير الحج والعمرة  فهو ينقسم على ثلاثة أضرب:
أحدها: أن يدخلها لقتال، مثال: أن يكون فيها قوم بغاة على الإمام، فيحتاج إلى قتالهم، أو يدخلها خائفا من ظالم، أو يخاف غريما له يلازمه ويحبسه، ولا يتمكن من أداء حقه، فيجوز له أن يدخلها بغير إحرام؛ لـ «أن النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - دخلها يوم الفتح وعلى رأسه المغفر» ، وهذه صفة من ليس بمحرم. فإن قيل: فهذا كان خاصا له لأنه قال ـ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - ـ: «مكة حرام، لم تحل لأحد قبلي ولا تحل لأحد بعدي، ولم تحل لي إلا ساعة من نهار» . فالجواب: أن معناه: أحلت لي ولمن هو في مثل حالي.
فإن قيل فعندكم: أنه دخلها مصالحا. قلنا: إنما وقع منه الصلح مع أبي سفيان، ولم يك ـ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - آمنا من غدرهم، فلذلك دخلها بغير إحرام.
والضرب الثاني: أن يدخلها لتجارة، أو زيارة، أو كان مكيا، فسافر إلى غيرها، ثم رجع إلى وطنه. ففيه قولان:
أحدهما: يستحب له الإحرام، ولا يجب عليه، وبه قال ابن عمر، لما روي: «أن الأقرع بن حابس قال: يا رسول الله، الحج مرة أو أكثر؟ فقال: بل مرة، وما زاد فهو تطوع» ولأنه داخل إلى مكة لغير نسك، فلم بجب عليه الإحرام، كالحطابين.
والثاني ـ هو الأشهر ـ: أنه يجب عليه الإحرام؛ لقوله ـ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - ـ: «لم تحل لأحد قبلي، ولا تحل لأحد بعدي، ولم تحل لي إلا ساعة من نهار» .
والضرب الثالث: أن يدخلها لحاجة تتكرر، كالحطابين، والصيادين، ومن ينقل الميرة، فالمنصوص: (أنه يجوز لهم أن يدخلوها بغير إحرام). غير أن الشافعي قال: (ينبغي لهم أن يحرموا في كل سنة مرة؛ لكي لا يستخفوا بحرمة الحرم، ولا تلحقهم مشقة في ذلك) .
والأول أصح؛ لأن دخولهم يكثر، فلو أوجبنا عليهم الإحرام.. شق وضاق، ولا معنى لوجوبه في وقت دون وقت. وهذا نقل الشيخ أبي حامد.
                                                                 الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (3/ 2130) دار الفكر - سوريَّة – دمشق:
حكم الداخل إلى مكة بعد أن حج واعتمر: قال الشافعية: من حج واعتمر حجة الإسلام وعمرته، ثم أراد دخول مكة لحاجة لا تتكرر، كزيارة أوتجارة أو رسالة، أو كان مكياً مسافراً، فأراد دخولها عائداً من سفره، فهل يلزمه الإحرام بحج أو عمرة؟ فيه تفصيل:
أـ إن دخلها لقتال بغاة أو قطاع طريق أو غيرهما من القتال الواجب أوالمباح، أو دخلها خائفاً من ظالم أو غريم يمسه، وهو معسر لا يمكنه الظهور لأداء النسك إلا بمشقة ومخاطرة، لم يلزمه الإحرام بلا خلاف؛ لأن النبي صلّى الله عليه وسلم دخل مكة يوم الفتح بغير إحرام ؛ لأنه كان لا يأمن أن يقاتل.
ب ـ يستحب لكل داخل إلى مكة لا يتكرر دخوله الإحرام، ويكره الدخول بغير إحرام، فمن دخل مكة لحاجة لا تتكرر كالتجارة والزيارة وعيادة المريض، فالأصح عند الشافعية أنه يستحب له الإحرام، ولا يجب مطلقاً. وقال مالك وأحمد: يلزمه، وقال أبو حنيفة: إن كانت داره في الميقات أو أقرب إلى مكة، جاز دخوله بلا إحرام، وإلا فلا.
جـ من كان يتكرر دخوله كالحطاب والحشاش والصياد والسقّاء والبريد والسائقين ونحوهم، يجوز دخوله بغير نسك، لما روى ابن عباس: «لا يدخل أحد مكة إلامحرماً، ورخص للحطابين»  ولأن في إيجاب الإحرام على هؤلاء مشقة.
المدونة الكبرى  (1/ 407) مالك بن أنس بن مالك بن عامر الأصبحي المدني (المتوفى: 179هـ) الناشر: دار الكتب العلمية،بیروت:
قلت لابن القاسم: أرأيت لو أن رجلا من أهل مصر دخل مكة بغير إحرام متعمدا أو جاهلا ثم رجع إلى بلده، أيكون عليه لدخول الحرم بغير إحرام حجة أو عمرة؟ قال: لا يكون عليه شيء ولكنه رجل عصى وفعل ما لم يكن ينبغي له.
قال ابن القاسم: إنما تركت أن أجعل عليه أيضا حجة أو عمرة لدخوله هذا للذي قال ابن شهاب، إن ابن شهاب كان لا يرى بأسا أن يدخل بغير إحرام.
التهذيب في اختصار المدونة (1/ 511):
ومن دخل مكة بغير إحرام متعمداً أو جاهلاً فقد عصى ولا شيء عليه، لأن ابن شهاب كان لا يرى بأساً أن يدخل مكة بغير إحرام، وخالفه مالك وقال: لا أحب لأحد من الناس أن يقدم من بلده فيدخل مكة بغير إحرام۔
عيون المسائل للقاضي عبد الوهاب المالكي (ص: 273) و محمد عبد الوهاب بن علي بن نصر الثعلبي البغدادي المالكي (المتوفى: 422هـ) دار ابن حزم للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت:
ومن دخلها بغير إحرام، فلا قضاء عليه سواء عاد من سنته، فحج أو لم يحج، وبه قال الشّافعيّ.
مواهب الجليل في شرح مختصر خليل (2/ 466) شمس الدين أبو عبد الله محمد بن محمدالمعروف بالحطاب الرُّعيني المالكي (المتوفى: 954هـ) دار الفكر،بيروت:
وأما العمرة فهي سنة مؤكدة مرة في العمر وأطلق المصنف - رحمه الله - في قوله: إنها سنة مرة في العمر ولا بد من زيادة كونها مؤكدة كما صرح به غير واحد من أهل المذهب، قال في الرسالة: والعمرة سنة مؤكدة مرة في العمر وقال في النوادر: قال مالك: العمرة سنة واجبة كالوتر لا ينبغي تركها
انتهى. وقال ابن الحاج في منسكه هي أوكد من الوتر، وفي الموطإ قال مالك: العمرة سنة ولا نعلم أحدا من المسلمين رخص في تركها انتهى. قال أبو عمر: حمل بعضهم قول مالك في الموطإ لا نعلم من رخص في تركها على أنها فرض وذلك جهل منه انتهى.
وقال ابن الحاج في منسكه: قال مالك: العمرة سنة مؤكدة وليست بفرض كالحج وهي أوكد من الوتر وقد قيل: إن قوله تعالى {والعمرة لله} [البقرة: 196] بعد قوله {وأتموا الحج والعمرة لله} [البقرة: 196] كلام مؤتنف وقد قرئت بالرفع، وقيل: إنما أمر بإتمامها من دخل فيها، وقال ابن حبيب وأبو بكر بن الجهم: هي فرض كالحج، وبه قال الشافعي وبه قال جماعة من أهل المدينة والمشهور الأول؛ لقوله - عليه الصلاة والسلام -: «الحج جهاد والعمرة تطوع» رواه الترمذي وقال: حديث حسن۔

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

21/رجب المرجب 1441ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب