021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
محصر دم دینے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو حلال کیسے ہو گا؟
69353حج کے احکام ومسائلعمرہ کے مسائل

سوال

اگر کوئی شخص حلال ہونے کے لئے’’دم‘‘ دینے کی استطاعت رکھتا ہو، مگر حرم میں دم ذبح کرنے والا کوئی شخص میسر نہ ہو یا یہ کہ سرے سے’’دم‘‘ دینے کے لیے مالی استطاعت ہی نہ رکھتاہواور کسی سے قرض بھی حاصل نہ ہو سکتا ہو توکیاحکم ہے؟ ایسا شخص کیسے حلال ہو گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر کوئی شخص احرام باندھنے کے بعد محصرہو جائے اور وہ حرم شریف میں دم نہ دے سکتا ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں اور دونوں صورتوں کا حکم علیحدہ علیحدہ ہے:

پہلی صورت: وہ  شخص دم دینے کی مالی استطاعت رکھتا ہو، مگر اس کے لیے حرم شریف میں جانور ذبح کرنے کی کوئی صورت ممکن نہ ہو، مثلا: اس کا کوئی جاننے والا شخص حرم شریف میں موجود نہ ہو اور کوئی اجنبی شخص بھی دم دینے کے لیے وکیل بننے کو تیار نہ ہو تو ایسی صورت میں اس کے لیے سوال نمبر(2) كے جواب میں ذکرکردہ تفصیل کے مطابق امام ابویوسف رحمہ اللہ کے مذہب پر عمل کرتے ہوئے ایک متوسط درجہ کے جانور کی قیمت صدقہ کرنے یا شافعیہ اور حنابلہ کے مذہب پر عمل کرتے ہوئے اسی مقام (جس شہر میں عمرہ کے افعال ادا کرنے سے روک دیا گیا) پر دم دینے کے بعداحرام کھولنے کی بھی گنجائش ہے۔

دوسری صورت:اس شخص کے اندر دم دینے کی مالی استطاعت موجود نہ ہو اور کسی شخص سے قرض یا عطیہ وغیرہ لینے کی بھی كوئی صورت نہ ہو تو اس  کے لیے امام ابویوسف رحمہ اللہ کے قول پر عمل کرنے کی گنجائش ہے اور امام ابویوسف رحمہ اللہ کا قول یہ ہے کہ جو شخص حدودِ حرم میں جانور ذبح کرنے اور  ایک متوسط درجہ کے جانور کی قیمت صدقہ کرنے کی مالی استطاعت نہ رکھتا ہو  اس کے لیے روزے رکھنا بھی جائز ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک متوسط جانور کی قیمت کی مارکیٹ میں جتنی گندم فروخت کی جاتی ہو اس کے ہر نصف صاع گندم کے بدلے میں ایک روزہ رکھنا لازم ہو گا، مثلا:اگر ایک متوسط جانور (بکرا، دنبہ یا بڑے جانور کا ساتواں حصہ) کی قیمت دس ہزار روپے ہو اور فی من گندم دو ہزار روپے کے حساب سے پانچ من (دوسو کلوگرام) بنتی ہو  اور نصف صاع کی مقدار حضرت مفتی رشید احمدصاحب رحمہ اللہ کے قول کے مطابق 2.249کلوگرام ہے، اس اعتبار سے ایسے شخص کو تقریباً تین ماہ (89دن)  روزے رکھنا لازم ہے۔

لیکن اگر کسی شخص میں مرض یا بڑھاپے وغیرہ  کی وجہ سے اتنے روزے رکھنا بھی مشکل ہو تو اس کے لیے ضرورت کے وقت امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب پر عمل کرنے کی بھی  گنجائش ہے اور حضرت امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ اگر محصر ہدی یعنی جانور اپنے ساتھ لے کر گیا ہو تو اس کو ذبح کر کے حلال ہو جائے اور اگر جانور ساتھ نہ لے گیا ہو، جیسا کہ آج کل عموما ایسا ہی ہوتا ہے  تو اس صورت میں بغیر کسی دم کے حلال ہونا  جائز ہے، نیز مالکیہ کے مذہب پر عمل کرنے کی صورت میں اس پر عمرہ کی قضاء بھی لازم نہیں ہو گی، کیونکہ فقہائے مالکیہ رحمہم اللہ کے نزدیک صرف فرض حج کی ادائیگی سے احصار کی صورت میں حج کی قضاء لازم ہوتی ہے۔

نوٹ: واضح رہے کہ محصرکے حلال ہونے کے لیے دم دینا صحیح اور صریح نصوص سے ثابت ہے اور یہی ائمہ ثلاثہ یعنی امام ابوحنفیہ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا مذہب ہے،  لہذا  محصر کو چاہیے کہ اوّلا کسی سے قرض، عطیہ یا زکوة (اگر مستحق زكوة ہو) وغیرہ لے کر دم دینے یا كم از كم اس کی قیمت صدقہ کرنے  کی کوشش کرے، اگر اپنی ہمت کی حد تک کوئی بھی صورت ممکن نہ ہوتو روزے رکھے، اگر اس کی بھی صلاحیت نہ ہوتو پھر بامر ِمجبوری امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب پر عمل کرے، کسی معمولی عذر کودم نہ دینے کا بہانہ نہ بنائے۔

حوالہ جات
تحفة الفقهاء (1/ 417) دار الكتب العلمية، بيروت:
ومنها أن المحصر إذا لم يجد الهدي ولا ثمن الهدي لا يحل بالإطعام والصوم بل يبقى محرما إلى أن يجد الهدي  الإحصار فيذهب إلى مكة فيحج إن بقي وقت الحج وإن فات وقت الحج فيتحلل بأفعال العمرة.
هذا هو المشهور من قولناوقال عطاء بن أبي رباح يحل بالإطعام ثم بالصوم بأن يقوم الهدي طعاما فيتصدق به على المساكين وإن لم يجد الطعام يصوم لكل نصف صاع يوماوبه أخذ أبو يوسف في رواية.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 180) دار الكتب العلمية،بيروت:
وقال عطاء بن أبي رباح في المحصر لا يجد الهدي: قوم الهدي طعاما وتصدق به على المساكين، فإن لم يكن عنده طعام صام لكل نصف صاع يوما، وهو مروي عن أبي يوسف.
البناية شرح الهداية (4/ 448) دار الكتب العلمية – بيروت:
(وتجزئه البقرة والبدنة أو سبعها كما في الضحايا) ش: أي يجزئه سبع البقرة أو سبع البدنة كما في الأضحية، وعن أبي يوسف - رَحِمَهُ اللَّهُ -: أن عطاء قال: للمحصر إذا لم يجد الهدي، قوم الهدي طعامًا يتصدق به على المساكين، فإن لم يكن عنده طعام صام لكل نصف صاع يومًا، وقال أبو يوسف: قول عطاء أحب إلي.
التاج والإكليل لمختصر خليل (4/ 292) دار الكتب العلمية،بیروت:
[باب موانع الحج من الإحصار وغيره]
فصل (وإن منعه عدو أو فتنة أو حبس لا بحق بحج أو عمرة فله التحلل) . اللخمي: لا خلاف فيمن أحصر بعدو وهو محرم بحج أو عمرة أن له أن يحل ولا قضاء عليه إذا لم تكن حجة الإسلام.
وفيها لمالك: والمحصر بعدو غالب أو فتنة في حج أو عمرة يتربص ما رجا كشف ذلك، فإذا يئس فليحلل بموضعه حيث كان من البلاد في الحرم أو في غيره ولا هدي عليه إلا أن يكون معه هدي فينحره هناك ويحلق ويقصر ويرجع إلى بلده، ولا قضاء عليه لحج ولا عمرة إلا أن يكون صرورة فلا يجزئه ذلك لحجة الإسلام، وإن أخر حلاق رأسه حتى رجع إلى بلده حلق ولا دم عليه.
التهذيب في اختصار المدونة (1/ 580) أبو سعيد ابن البراذعي المالكي (المتوفى: 372هـ) دار البحوث للدراسات الإسلامية وإحياء التراث، دبي:
والمحصر بعدو غالب أو فتنة في حج أو عمرة يتربص ما رجا كشف ذلك، فإذا يئس من أن يصل إلى البيت فليحل بموضعه حيث كان من البلاد، في الحرم أو غيره، ولا هدي عليه إلا أن يكون معه هدي فينحره هناك ويحلق أو يقصر، ويرجع إلى بلده ولا قضاء عليه لحج ولا عمرة إلا أن يكون صرورة فلا يجزيه ذلك من حجة الإسلام، وعليه حجة الإسلام [من] قابل. وإن أخر حلاقه حتى رجع إلى بلده [حلق] ولا دم عليه.
الذخيرة للقرافي (3/ 187) أبو العباس شهاب الدين أحمد بن إدريس بن عبد الرحمن المالكي الشهير بالقرافي (المتوفى: 684هـ) دار الغرب الإسلامي- بيروت:
وللمحصر بعدو خمس حالات يصح الإحلال في ثلاث ويمنع في وجه ويصح في وجه إن شرط الإحلال فالثلاثة أن يكون العدو طارئا بعد الإحرام أو متقدما ولم يعلم أو علم وكان يرى أنه لا يصده فصده ففي هذه يجوز التحلل لفعله - صلى الله عليه وسلم - فإنه كان يعتقد أن المشركين لا يصدونه وإن علم أنهم يمنعونه أو شك لم يحل إلا أن يشترط الإحلال في صورة الشك كما فعله ابن عمر رضي الله عنهما وإن صد عن طريق وهو قادر على الوصول من غيره لم يجز له التحلل إلا أن يضر به الطريق الآخر والبعد ليس بعذر فرعان: الأول في الكتاب المحصر بعدو غالب أو فتنة في الحج أو عمرة يتربص ما رجا كشف ذلك ويتحلل بموضعه إذا أيسر حيث كان من الحرم وغيره ولا هدي عليه وإن كان معه هدي نحره ويحلق أو يقصر ولا قضاء عليه ولا عمرة إلا الصرورة فعليه حج الإسلام۔
المعونة على مذهب عالم المدينة (ص: 502) أبو محمد عبد الوهاب بن علي بن نصر الثعلبي البغدادي المالكي (المتوفى: 422هـ) المكتبة التجارية، مكة المكرمة:
فصل [- في حكم العمرة]: والعمرة سنة مؤكدة وليست بفريضة خلافا للشافعي ، لقوله صلى الله عليه وسلم وسئل عن الحج أفريضة هو؟ فقال: "نعم"، قيل: والعمرة؟ قال: "لا ولأن تعتمر خير لك  " ، وقوله: "الحج جهاد والعمرة تطوع" ، وقوله: "من مشى إلى مكتوبه فهي كحجة، ومن مشى إلى تطوع فهي كعمرة تامة"، ولأنه نسك ليس له وقت معين فلم يكن فرضا أصله طواف القدوم، ولأن فرائض الأبدان المتعلقة بمكان مخصوص يتعلق بزمان معين، فلما لم يكن للعمرة زمن معين انتفى بذلك كونها فرضا.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

21/رجب المرجب 1441ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب