021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سلے ہوئے کپڑے پہن کر عمرہ کرنے کا حکم
69355حج کے احکام ومسائلاحرام اور اس کے ممنوعات کا بیان

سوال

اگر حکومتی پابندی کے باوجود حکام کو دھوکہ دے کرکسی بہانے حرم میں پہنچ کرمثلاسلے ہوئے کپڑوں میںیارنگین چادروں میں عمرہ کے افعالاداء کرلے توکیاحکم ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر اس شخص نے احرام یعنی عمرہ کی نیت سے تلبیہ پڑھ کر سلے ہوئے کپڑوں میں عمرہ کیا ہے تو اس صورت میں اس کا عمرہ ہو گیا، البتہ سلے ہوئے کپڑے پہننے کی وجہ سے صدقہ یا دم واجب ہو گا، جس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر ایک دن یا ایک رات سلے ہوئے کپڑے پہنے رکھے تو دم واجب ہو گا اور اس سے کم وقت پہنے تو صدقہٴ فطر کی مقدار گندم یا اس کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہو گا، یہ بھی یاد رہے کہ دم حدودِ حرم میں ہی دینا ضروری ہے، البتہ صدقہ کسی بھی جگہ دیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر اس نے ان سِلی رنگین چادریں پہن کر عمرہ کیا ہے تو اس پر کچھ بھی لازم نہیں، کیونکہ حالتِ احرام میں سِلا ہوا کپڑا پہننا منع ہے، رنگین پہننا منع نہیں۔

لیکن اگر اس شخص نے احرام باندھے بغیر ہی عمرہ کرلیا ہے، یعنی عمرہ کی نیت سے تلبیہ نہیں پڑھا تو اس صورت میں اس کا احرام نہیں ہوا، جبکہ احرام باندھنا حج اور عمرہ دونوں کے لیے شرط ہے، اس لیے شرط کے نہ پائے جانے کی وجہ سے اس کا عمرہ نہیں ہوا، البتہ اس صورت میں حرم شریف میں بغیر احرام کے داخل ہونے کی وجہ سے ایک دم اور عمرہ کی قضاء لازم ہے، البتہ اگر یہ شخص اسی سال واپس آکر میقات سےعمرہ کا احرام باندھ کر عمرہ کر لے تو عمرہ کی قضاء بھی ہو جائے گی اور دم بھی ساقط ہو جائے گا۔

حوالہ جات
تحفة الفقهاء (1/ 419) دار الكتب العلمية، بيروت :
وأما مسائل المحظورات فنقول إذا لبس المحرم المخيط فإن كان يوما كاملا فعليه دم فأما إذا كان في بعض اليوم فإنه يجب عليه صدقة لأن لبس المخيط إنما حرم لكونه من مرافق المقيمين واللبس يوما كاملا يكون استمتاعا كاملا فعليه دم وإلا فيجب بقدره من الصدقة بأن يقسم قيمة الهدي على ساعات اليوم فما يصيب ذلك الوقت الذي ليس فيه يجب عليه بقدره وكذا قال بعض أصحابنا وروي عن أبي يوسف أنه يطعم نصف صاع من بر وكل صدقة في الإحرام غير مقدرة فهي نصف صاع إلا في قتل الجرادة والقملة فهي كف من طعام ولو لبس جميع الثياب ولبس الخفين أيضا لا يلزمه إلا جزاء واحد لأن الجنس واحد۔
تحفة الفقهاء (1/ 392) دار الكتب العلمية، بيروت :
وأما ركن العمرة فشيئان الطواف والسعي والإحرام شرط أدائها والحلق أو التقصير شرط الخروج۔
درر الحكام شرح غرر الأحكام (1/ 255) دار إحياء الكتب العربية:
(دخل مكة بلا إحرام لزمه حج أو عمرة وصح منه) أي مما لزمه بسبب دخول مكة بغير إحرام (لو خرج) في عامه ذلك إلى الميقات وأحرم (وحج عما عليه في ذلك العام لا بعده)
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 53):
(قوله: ومن دخل مكة بلا إحرام ثم حج عما عليه في عامة ذلك صح عن دخول مكة بلا إحرام، وإن تحولت السنة لا) ؛ لأنه تلافى المتروك في وقته؛ لأن الواجب عليه تعظيم هذه البقعة بالإحرام كما إذا أتاها بحجة الإسلام في الابتداء بخلاف ما إذا تحولت السنة؛ لأنه صار دينا في ذمته فلا يتأدى إلا بإحرام مقصود كما في الاعتكاف المنذور فإنه يتأدى بصوم رمضان من هذه السنة دون العام الثاني۔

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

21/رجب المرجب 1441ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب