021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حق مہر پر قبضہ کرنے کاحکم
68969نکاح کا بیانجہیز،مہر اور گھریلو سامان کا بیان

سوال

سوال:میرا( زہرہ بی بی) کا نکاح محمد بوٹا ولد منشی خان سے ہو ا تو میرے سسر نے ایک متعین دکان مجھے حق مہر میں دی۔اس کے بعد میرے سسر صاحب کی موجودگی میں میرے دیوروں نے اس دکان کے 5 حصے کیے(باہمی قیمت لگائی ) جو کہ پانچ بھائی ہیں  اور اسکی قیمت تقسیم کرکے میرے شوہر کو ایک حصہ دے دیا۔ جب مجھے اس کی خبر ملی تو میں نے اس کا انکار کیا اور کہا کہ یہ میر ا حصہ ہے۔نکاح کے تقریباً 25 سال بعد میرے شوہر نے ایک اقرار نامے پر دستخط کیے جس میں یہ تھا کہ میں اپنی دکان کا حصہ لے چکا ہوں ،باقی دکان اپنے بھائیوں کے نام کرتا ہوں ۔اس اقرار نامے کے تقریباً 6 سال بعد جب میں نے اپنے حق مہر کا مطالبہ کیا تو انہوں نے ایک بیان حلفی دیا جس میں انہوں نے لکھا کہ میں اپنی دکان ساری بیوی کی ملکیت کرتا ہوں ۔

نیز ابھی تک اس دکان کے تمام کا غذات اور قبضہ میرے نام بحال ہے۔کیا اب یہ دکان جو متعین طور پر میرے نام کی تھی اس تمام صورتحال کے بعد مجھے مل سکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں مذکورہ دکان جب حق مہر کے طور  پر متعین ہوگئی تو اس دکان پر زہرہ بی بی کا حق ہے۔شوہر  یا  اس کے بھائیوں کے لیے اس دکان کو لینا جائز نہیں ہے۔لہذا اگر شوہر یا اس کے بھائیوں نے مذکورہ  دکان زہرہ بی بی کی اجازت کے بغیر اپنے تصرف میں رکھی ہوئی ہے تو  یہ غصب شمار ہوگا۔

جس کا حکم یہ ہے مذکوہ دکان  بیوی کو واپس کی جائے  ۔نیزشوہر نے اپنے بھائیوں سے جو اپنے حصے کی قیمت لی تھی وہ بھی اپنے بھائیوں کو وہ قیمت  واپس کرے ۔اس لیے کہ جب دکان پر بیوی کا حق تھا تو  شوہر کے لیے اس دکان کی قیمت لگا کراپنے بھائیوں سے اپنے حصے کی رقم لینا جائز نہیں تھا۔

حوالہ جات
المعجم الكبير (22/ 189)
حدثنا أحمد بن عمرو البزار ثنا عبد الله بن شبيب ثنا الوليد بن عطاء بن الأغر ثنا عبد الحميد بن سليمان أخو فليح بن سليمان ثنا أبو حازم عن أبي شريح الخزاعي قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من أخذ شبرا من الأرض ظلما طوقه يوم القيامة سبع أرضين
مجلة الأحكام العدلية (ص: 172)
يلزم رد المال المغصوب عينا وتسليمه إلى صاحبه في مكان الغصب إن كان موجودا ۔۔۔ كما أنه يلزم أن يكون الغاصب ضامنا إذا استهلك المال المغصوب كذلك إذا تلف أو ضاع بتعديه أو بدون تعديه يكون ضامنا أيضا فإن كان من القيميات يلزم الغاصب قيمته في زمان الغصب ومكانه وإن كان من المثليات يلزمه إعطاء مثله.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 98)
لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي هذه القاعدة مأخوذة من المجامع وقد ورد في الحديث الشريف «لا يحل لأحد أن يأخذ متاع أخيه لاعبا ولا جادا فإن أخذه فليرده» فإذا أخذ أحد مال الآخر بدون قصد السرقة هازلا معه أو مختبرا مبلغ غضبه فيكون قد ارتكب الفعل المحرم شرعا؛ لأن اللعب في السرقة جد فعلى ذلك يجب أن ترد اللقطة التي تؤخذ بقصد امتلاكها أو المال الذي يؤخذ رشوة أو سرقة أو غصبا لصاحبها عينا إذا كانت موجودة وبدلا فيما إذا استهلكت.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 42)
الضرر يدفع بقدر الإمكان۔۔۔یعنی إذا اغتصب شخص مال آخر واستهلكه فلأن إرجاع المال المغصوب المستهلك بعينه غير ممكن يضمن الغاصب مثل ذلك المال إذا كان من المثليات وقيمته إن كانت من القيميات.

طلحہ بن قاسم

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

02/07/1441

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طلحہ بن قاسم

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب