021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شادی کے موقع پر لڑکی والوں کا لڑکے والوں سے رقم لینا
69610نکاح کا بیانجہیز،مہر اور گھریلو سامان کا بیان

سوال

ہمارے علاقے میں ایک رسم ہے کہ جب کوئی لڑکا شادی کرتا ہے تو لڑکے والے لڑکی کے سرپرست کو نقد رقم دیتے ہیں، اس رسم کو" ولور" کہتے ہیں، یہ رقم لڑکی کا سرپرست طلب کرتا ہے جو کہ لاکھوں میں ہوتی ہے۔ مختلف خاندان اس رقم کو مختلف طریقے سے استعمال کرتے ہیں، کچھ لوگ اس رقم سے لڑکی کا جہیز بناتے ہیں ، کچھ اس رقم کے ساتھ مزید رقم ملا کر لڑکی کا جہیز بناتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ آدھی رقم کا جہیز بناکر آدھی رقم خود رکھ لیتے ہیں ، مختصرا یہ کہ امیر یا یا غریب وہ اس رسم میں بندھا ہوا ہے، یہ رقم خاندان اور حیثیت کے مطابق طے کی جاتی ہے، امیر خاندان 20 لاکھ اور غیریب و متوسط خاندانوں میں  چار لاکھ سے چھ لاکھ میں طے کی جاتی ہے، رقم باہم رضامندی سے طے ہوتی ہے، اس رسم کی وجہ سے اکثر شادیاں لیٹ ہوجاتی ہیں، ،کیونکہ لڑکے کے لیے رقم کا بندوبست مشکل ہوجاتا ہے۔

اس رسم کے بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ کیا یہ رسم جائز ہے یا شریعت مطہرہ میں اس کی گنجائش موجودہے؟

نوٹ: جب لڑکی کا باپ یہ رقم لیتا ہے تو لڑکی دلہن بنی بیٹھی ہوتی ہے اور باپ اس کے سامنے رقم رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مجھے بخش دو اب لڑکی بے چاری اس وقت تمام احباب کے سامنے باپ کو کیسے انکار کرسکتی ہے؟ مزید یہ کہ اس رقم سے لڑکی کا باپ حج بھی کر لیتا ہے، کیا یہ حج بھی جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اسلام نے نکاح میں مہر کو کم سے کم مقرر کرنے کی ترغیب دی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ ہے جس میں خرچ واخراجات کم ہوں ،اسی طرح ایک حدیث مبارک میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا کہ خبر دار مہر بڑھا کر مت ٹھہراؤ، اس لیے کہ اگر یہ اللہ تعالی کے نزدیک عزت کی بات ہوتی اور تقوی کی بات ہوتی توتمہارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ مستحق تھے، مجھ کو نہیں معلوم کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بارہ اوقیہ سے زیادہ میں کسی بی بی سے نکاح کیا ہو یا کسی صاحبزادی کا نکاح کیا ہو ،لہذا خاندانی رسم ورواج یا دکھلاوے کے لیے زیادہ مہر مقرر کرنا اسلامی تعلیمات  اور سنت کے خلاف ہے،جس سے احتراز کرنا چاہئے،البتہ محض خاندانی وجاہت اور شرافت کے پیش نظر خاندان کی لڑکیوں کے مطابق مہر مقرر کرنا بھی ہرلڑکی کا حق ہے،جس سے کم مہر لڑکی کی رضامندی کے بغیرمقرر کرناجائز نہیں۔

باقی سؤال میں مذکور رقم کی شرعی اور فقہی حیثیت کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ:

۱۔ اگر یہ رقم خالص مہر کے طور پر ہو تو یہ لڑکی کا حق ہے،لہذااس سے اس کے جہیز کا سامان  یا زیوارات وغیرہ خریدنا تو جائز ہے،لیکن لڑکی کی طرف سے دعوت وغیرہ یا کسی بھی طرح لڑکی کے والدین یا گھر والوں کا اسے ذاتی استعمال میں لاناجائز نہیں، (امدادالفتاوی:ج۲،ص۲۱۱)نیز باپ وغیرہ کسی بھی سرپرست کا لڑکی سے دلی رضامندی کے بغیر معاف کروانے یا بخشش کا بھی شرعا اعتبار نہیں،لہذا اس رقم کو اپنے ذاتی استعمال حج وغیرہ میں استعمال بھی قطعا جائز نہیں۔

۲۔ اگریہ رقم  لڑکی کاعوض ہو یا اس میں عوض کا پہلو بھی نمایاں ہو یعنی لڑکی کےسرپرست  اس کواپنا حق سمجھ کر لیتےہو یااس کاعرف و رواج ہو تو یہ ناجائز اور حرام ہے۔

۳۔ اسی طرح اگر یہ رقم مہر اور عوض کے علاوہ ہویعنی لڑکی کی رخصتی کرانے کے لیے دی گئی ہو تو یہ رشوت ہے ،لہذاان دونوں صورتوں میں اس رقم کا لوٹانا ضروری ہے،البتہ مہر کی صورت میں یہ لڑکی کا حق ہوگا،جس کا اس کی دلی رضامدی کے بغیرلینا یاذاتی استعمال جائز نہ ہوگا۔ 

حوالہ جات
مشكاة المصابيح مع شرح مرقاة المفاتيح (5/ 2049)
وعن عائشة قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن أعظم النكاح بركة أيسره مؤنة» . رواهما البيهقي في شعب الإيمان
 (وعن عائشة) رضي الله عنها (قالت: «قال النبي صلى الله عليه وسلم الله عليه وسلم: إن أعظم النكاح بركة» ) أي: أفراده وأنواعه (أيسره) أي: أقله أو أسهله (مؤنة) أي: من المهر والنفقة للدلالة على القناعة التي هي كنز لا ينفد ولا يفنى. (رواهما البيهقي في شعب الإيمان)
سنن الترمذي ت بشار (2/ 414)
حدثنا ابن أبي عمر، قال: حدثنا سفيان بن عيينة، عن أيوب، عن ابن سيرين، عن أبي العجفاء السلمي، قال: قال عمر بن الخطاب: ألا لا تغالوا صدقة النساء، فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا، أو تقوى عند الله لكان أولاكم بها نبي الله صلى الله عليه وسلم، ما علمت رسول الله صلى الله عليه وسلم نكح شيئا من نسائه ولا أنكح شيئا من بناته على أكثر من ثنتي عشرة أوقية.
هذا حديث حسن صحيح.وأبو العجفاء السلمي: اسمه هرم.
والأوقية عند أهل العلم: أربعون درهما وثنتا عشرة أوقية أربع مائة وثمانون درهما.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 113)
ولا بد من رضاها. ففي هبة الخلاصة خوفها بضرب حتى وهبت مهرها لم يصح لو قادرا على الضرب. اهـ.
الفتاوى الهندية (1/ 327)
ولو أخذ أهل المرأة شيئا عند التسليم فللزوج أن يسترده؛ لأنه رشوة، كذا في البحر الرائق
الفتاوى الهندية (1/ 328)
تزوجها وأعطاها ثلاثة آلاف دينار بدست بيمان وهي بنت موسر ولم يعطها الأب جهازا أفتى الإمام جمال الدين وصاحب المحيط بأنه يتمكن من مطالبة الجهاز من الأب على قدر العرف والعادة، وإن لم يجهز له طلب دست بيمان قال وهذا اختيار الأئمة۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۷ذیقعدہ۱۴۴۱ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب