021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سرکاری ملازمین کا ٹھیکیداروں سے کمیشن لینا
69546جائز و ناجائزامور کا بیانرشوت کا بیان

سوال

گورنمنٹ کے Throughکنسٹرکشن کے کام کرنے والے ادارے مثلاًNHA,KDA,CDA, LDA, Cantonment, WD, FWO,MES, وغیرہ میں کام کرنے والےسینیئراور جونیئر افسران جیسے انجینئر ، سب انجینئر،اکاؤنٹینٹ اور دیگرافسران کسی بھی ٹھیکے کےبل کی ادائیگی کے وقت ٹھیکیدار کے بل کی رقم25فیصد رقم کٹوتی کرتے ہیں مثلاً ایک کروڑ کے ٹھیکے سے25لاکھ کاٹ دیے جاتے ہیں جو کہ کمیشن کی صورت میں عہدہ کے مطابق اپنے افسران کو ادارہ ادا کردیتا ہے۔اور اس بات کا علم ادنی سے لے کر اعلی طبقے تک سب کو ہے ۔ 2- کچھ ادارے ایسے ہیں جوکمیشن بھی لیتے ہیں مگر ٹھیکیدار سے کام اپنی مرضی سے بالکل ڈرائنگ اور ڈیزائن کے مطابق کرواتے ہیں، کام میں کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں دیتے،اگر ناقص کام دیکھنے کو آئے تو تعمیر شدہ حصے کو توڑوا کر نئے سرے سے تعمیر کرواتے ہیں۔جس کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، لیکن ساتھ کمیشن بھی لیتے ہیں جو ادارہ خود کاٹ لیتا ہے اور بعد میں افسران کو ملتا ہے،جبکہ کچھ ادارے ایسے ہیں جو تعمیرات کے کام کی نوعیت کو بہتر بنانے کا مطالبہ کریں تو ٹھیکیدار کمیشن کا طعنہ دیتے ہیں جس پر افسران خاموش ہوجاتے ہیں اور کام کے معیار پر خاص توجہ نہیں دیتے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کمیشن جائز ہے یا نا جائز؟جبکہ ادارہ ماہانہ تنخواہ بھی ادا کررہا ہے۔ رہی یہ بات کہ سلیکٹ ہونے والے نئے ممبر کے Appointment letter میں کمیشن کا ذکر ہے یا نہیں اس کا مجھے علم نہیں ۔یہ مسئلہ پوچھنے کا مقصد یہ ہے کہ میاں نے سول انجینئرنگ سے متعلقہ تعلیم حاصل کی ہے تومیں ذہنی طور پر تیار رہوں کہ میرا گزر بسر صرف تنخواہ پر ہوگا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سرکاری ملازمین کو ان کی محنت کے بدلےتنخواہ اور دیگر سہولیات ملتی ہیں (ہماری معلومات کےمطابق ان کے اپوائنٹمنٹ لیٹر میں اس قسم کے کسی کمیشن کا ذکر نہیں ہوتا) اس لیے ان کا ٹھیکیداروں سے کمیشن لینا رشوت اور حرام ہے۔پھر اگر وہ رشوت لینے کے باوجود ٹھیکیداروں سے مطلوبہ معیار کے مطابق کام لیتے ہیں توصرف رشوت کا گناہ ہوگا اور اگر بلیک میل ہوکر ناقص کام پر خاموش ہوجاتے ہیں تورشوت کے ساتھ ساتھ خیانت اور بددیانتی کےارتکاب کی وجہ سے دوہراگناہ ہوگا۔ اس طرح کے کسی بھی محکمہ میں کام کرنے والے ملازمین پر لازم ہے کہ اپنی حلال تنخواہ پر اکتفاء کریں۔ان کے لیے کمیشن کے نام پر رشوت لینا جائز نہیں۔الله تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اس لعنت سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
حوالہ جات
قال اللہ تبارک و تعالى: (ولا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل وتدلوا بها إلى الحكام لتأكلوا فريقاً من أموال الناس بالإثم وأنتم تعلمون) [البقرة: 188] وقال جل شانہ: (سماعون للكذب أكالون للسُحت) [المائدة : 41] وروي عن سعيد بن جبير والحسن وإبراهيم وعكرمة: أنهم قالوا الرشوة في الحكم. ( تفسير ابن أبي حاتم ٤ /‏١١٣٤) المستدرك علی الصحیحین للإمام الحاکم النیسابوری (4/ 103): عن ثوبان رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : لعن اللہ الراشيَ والمرتشيَ والرائشَ، الذي يمشي بينهما. المحيط البرهاني في الفقه النعماني : (ج 16 / ص 346) واعلم بأن الرشوة أنواع: نوع منها أن يهدي الرجل إلى الرجل مالاً لإبقاء التودد والتحبّب، وهذا النوع حلال من جانب المهدي والمهدى إليه، قال عليه السلام: "تهادوا تحابوا"ونوع منها: أن يهدي الرجل إلى رجل مالاً، لأن ذلك الرجل قد خوفه فيهدي إليه مالاً ليدفع الخوف من نفسه، أو يهدي إلى السلطان مالاً ليدفع ظلمه عن نفسه أو ماله، وهذا نوع لا يحل للآخذ الأخذ، وإذا أخذ يدخل تحت الوعيد المذكور في هذا الباب، لأنه يأخذ المال للكف عن التخويف والظلم، والكف عن التخويف والظلم واجب بحكم الإسلام، ولا يحل أخذ المال بمقابلة الواجب. فی رد المحتار(ج5 / ص 362،دارالفکر): وفي الفتح: ثم الرشوة أربعة أقسام: منها ما هو حرام على الآخذ والمعطي وهو الرشوة على تقليد القضاءوالإمارة.الثاني: ارتشاء القاضي ليحكم وهو كذلك ولو القضاء بحق؛ لأنه واجب عليه.الثالث: أخذ المال ليسوي أمره عند السلطان دفعا للضرر أو جلبا للنفع وهو حرام على الآخذ فقط وحيلة حلها أن يستأجره يوما إلى الليل أو يومين فتصير منافعه مملوكة ثم يستعمله في الذهاب إلى السلطان للأمر الفلاني، وفي الأقضية قسم الهدية وجعل هذا من أقسامها فقال: حلال من الجانبين كالإهداء للتودد وحرام منهما كالإهداء ليعينه على الظلم وحرام على الآخذ فقط، وهو أن يهدى ليكف عنه الظلم والحيلة أن يستأجره إلخ قال: أي في الأقضية هذا إذا كان فيه شرط أما إذا كان بلا شرط لكن يعلم يقينا أنه إنما يهدي ليعينه عند السلطان فمشايخنا على أنه لا بأس به، ولو قضى حاجته بلا شرط ولا طمع فأهدى إليه بعد ذلك فهو حلال لا بأس به وما نقل عن ابن مسعود من كراهته فورع.الرابع: ما يدفع لدفع الخوف من المدفوع إليه على نفسه أو ماله حلال للدافع حرام على الآخذ؛ لأن دفع الضرر عن المسلم واجب ولا يجوز أخذ المال ليفعل الواجب، اهـ ما في الفتح ملخصا. وفي القنية الرشوة يجب ردها ولا تملك وفيها دفع للقاضي أو لغيره سحتا لإصلاح المهم فأصلح ثم ندم يرد ما دفع إليه اهـ، وتمام الكلام عليها في البحر ويأتي الكلام على الهدية للقاضي والمفتي والعمال. إعلاءالسنن(ج14/ص635): والحاصل:أن حد الرشوة هوما يؤخذ عماوجب علي الشخص سواءكان واجباًعلی العين أوعلی الكفاية وسواء كان واجباً حقاً للشرع كما في القاضي وأمثاله...أو كان واجباً عقداً كمن آجر نفسه لإقامة أمر من الأمور المتعلقة بالمسلمين فيما لهم،أو عليهم كأعوان القاضى، وأهل الديوان وأمثالهم.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سیف اللہ تونسوی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب