021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیٹے،بیٹیوں اورفوت شدہ بیٹیوں کی اولاد میں میراث کی تقسیم
69547میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

محمد شریف صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔ان کے اولاد میں ایک بیٹااورچھ بیٹیاں ہیں۔ان میں سے دو بیٹیوں کا انتقال اپنے والد کی زندگی میں ہوگیا تھا۔ان دو بیٹیوں کی اولاد موجود ہے۔اب پوچھنا یہ ہے کہ وراثت کی تقسیم کیسے ہوگی؟شرعاًوتفصیلاً جواب مطلوب ہے ۔ پتا یہ چلا تھا کہ نواسے نواسیوں کا شرعاًحصہ نہیں ہے،جبکہ پاکستانی قانوں میں ان کا حصہ ہے۔ شریعت مطھرہ کی روشنی میں مرحومہ کا ترکہ کس طرح تقسیم ہوگا؟ (مستفتی نے فون پر بتایا کہ مرحوم کی بیوی، والدین، دادا، دادی اور نانی میں سے کوئی ان کی وفات کے وقت زندہ نہ تھا)۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مرحوم محمد شریف نے اپنے انتقال کے وقت جو نقد رقم، سونا، چاندی، جائیداد، مکان، غرض جو کچھ چھوٹا بڑا ساز و سامان چھوڑا ہے، یا اگر کسی کے ذمہ ان کا قرض تھا، تو وہ سب اس کا ترکہ ہے، اس میں سے سب سے پہلے ان کی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں گے، بشرطیکہ یہ اخراجات کسی نے بطورِ احسان ادا نہ کیے ہوں۔ اس کے بعد دیکھا جائے گا، اگر ان کے ذمے کسی کا قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے گا۔ اس کے بعد اگر انہوں نے کسی غیر وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی ترکہ کی حد تک اس کو پورا کیا جائے گا۔ اس کے بعد جو کچھ بچے، اسےچھ حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کےبیٹے کو دوحصے، اور ہر ایک بیٹی کو ایک ایک حصے دیا جائے گا ۔فیصدی اعتبارسےبیٹے کو33.33%اورہربیٹی کو% 16.67 دیا جائے گا۔ جن دو بیٹیوں کی محمد شریف کی زندگی میں وفات ہوگئی تھی ان کی اولاد یعنی محمد شریف کے نواسے اور نواسیاں شرعاً وراثت میں حق دار نہیں ہیں،کیونکہ میت کی میراث سے صرف ان ورثا کوحصہ ملتا ہے جو اس کی وفات کے وقت زندہ ہوں۔اس کے زندگی میں وفات پاجانے والےشرعاً وراثت میں حصہ دار نہیں ہوتے۔ ترکہ کی تقسیم کا نقشہ ملاحظہ فرمائیں: مسئلہ6 میـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ بیٹا بیٹی بیٹی بیٹی بیٹی 3/1 3/2 2 1 1 1 1 %33.33 16.67% 16.67% 16.67% 16.67%

حوالہ جات
القرآن الکریم(النساء: 11): {يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ السراجیة فی المیراث (ص:2،3): قال علماؤنا رحمهم الله تعالی: تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبة: ألأول يبدأ بتكفينه وتجهيزه من غیر تبذیر ولاتقتیر، ثم تقضی دیونه من جمیع ما بقی من ماله، ثم تنفذ وصایاه من ثلث ما بقی بعد الدین، ثم یقسم الباقی بین ورثته بالکتاب والسنة وإجماع الأمة. فی رد المحتار(ج6 / ص 758): والمراد بالفرائض السهام المقدرة كما مر فيدخل فيه العصبات ، وذو الرحم لأن سهامهم مقدرة وإن كانت بتقدير غير صريح ، وموضوعه : التركات ، وغايته : إيصال الحقوق لأربابها ، وأركانه : ثلاثة وارث ومورث وموروث . وشروطه : ثلاثة : موت مورث حقيقة ، أو حكما كمفقود ، أو تقديرا كجنين فيه غرةووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل .
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سیف اللہ تونسوی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب