021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک بیوی،والد،چار سگے بھائی،چار بہنوں اورسوتیلی والدہ میں وراثت کی تقسیم
77185میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں شریعت کی رو سے کیا فرماتے ہیں، ملوک خان بن دوست محمد کی دو شادیاں تھیں، پہلی شادی سے پانچ بیٹے میر عبداللہ، نعمت اللہ ،نادر خان ،باز خان، حفیظ اللہ اور چار بیٹیاں تھیں ،ان کی والدہ وفات پا چکی تھیں، جبکہ دوسری شادی تقریبا سات سال بعد پہلی بیوی کی ایک بیٹی بدلے میں دے کر کی تھی، اس دوسری بیوی  سے تین بیٹے شاہذ اللہ، حبیب اللہ، خان ولی اور پانچ بیٹیاں تھیں، ان کی والدہ حیات تھیں،   ملوک خان بن دوست محمد نے اپنی حیات میں اپنی  زمین کے 9 حصے کیے  ،پہلا حصہ میر عبداللہ کا، دوسرا حصہ نعمت اللہ کا ،تیسرا حصہ نادر خان کا، چوتھا حصہ بازخان کا، پانچواں حصہ حفیظ اللہ کاجبکہ دوسری بیوی سےشاہذ اللہ،  حبیب اللہ ،خان ولی  اور پانچ بیٹیاں تھیں ،لہٰذاچھٹا حصہ شاہذ اللہ کا ،ساتواں حصہ حبیب اللہ کا، آٹھواں حصہ خان ولی کااور نواں حصہ ملوک خان  بن دوست محمد نے اپنا کیا،  کچھ عرصے بعد پہلی بیوی کا ایک بیٹا حفیظ اللہ اور دوسری بیوی کا ایک بیٹا شاہذ اللہ،ملوک خان کی زندگی میں ہی وفات پا گئے،  ان کی وفات کے تقریبا ًدس پندرہ سال  بعد ملوک خان بن دوست محمد بھی وفات پا گئے  اور ملوک خان بن دوست محمدکی وفات کے بعد  دوسری بیوی سے صفی اللہ نامی بیٹا پیدا ہوا  ۔

سوال نمبر (۱):ملوک خان کا ایک بیٹا جو کہ ملوک خان کی بیوی سورتی خاتون سے تھا ،ملوک خان  کی زندگی میں انتقال کرگیا،اس بیٹے کو  والد ملوک خان نے زندگی میں جائداد کا حصہ تملیک ،قبضہ و تصرف کے ساتھ دے دیا تھا،اس بیٹے کی وراثت کیسے تقسیم ہوگی؟ملوک خان کے مذکورہ  بیٹے کا نام حفیظ اللہ تھا اور  اس کے انتقال کے وقت اس کے ورثاء میں   زوجہ،۴ سگے بھائی،۴ سگی بہنیں،والد اور سوتیلی والدہ زندہ تھیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق مرحوم حفیظ اللہ کے مالِ وراثت  میں سے کفن دفن کے اخراجات،قرض کی ادائیگی اور ایک تہائی مال میں وصیت نافذ کرنے کے بعد بشرطیکہ وصیت کی ہو،بقیہ مال میں سے حفیظ اللہ مرحوم کی زوجہ کو  ربع یعنی چوتھائی حصہ ملے گا اور بقیہ سارا مال حفیظ اللہ مرحوم کے والد کو ملے گا،حفیظ اللہ کے سگے بھائی بہنوں اور سوتیلی والدہ کو حفیظ اللہ کی وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا،نیزفیصد کے اعتبار سے درج ذیل طریقے سے وراثت کی تقسیم کی جائے گی۔

وارث

حصہ

حفیظ اللہ مرحوم کی زوجہ

25 فیصد

حفیظ اللہ مرحوم کے والد

75 فیصد

4 سگے بھائی

0

4 سگی بہنیں

0

سوتیلی والدہ

0

حوالہ جات
{وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ } [النساء: 12]
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 770)
(وللأب والجد) ثلاث أحوال الفرض المطلق وهو (السدس) وذلك (مع ولد أو ولد ابن) والتعصيب المطلق عند عدمهما.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 780)
(ويحجب المحجوب) اتفاقا كأم الأب تحجب بالأب ,وتحجب أم أم الأم (كالإخوة والأخوات) فإنهم يحجبون بالأب حجب حرمان.

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

۲۰/ذو القعدۃ ۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب