021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں جائداد کی تقسیم کا درست طریقہ
77187میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

برائے مہربانی   یہ بتائیں کہ جو جائداد ملوک خان نے اپنی زندگی میں تقسیم کردی تھی اس کا حکم کیا ہوگا؟اور  ملوک خان کی وراثت کی تقسیم کون سی جائداد سے کی جائے گی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال کے جواب سے پہلے بطور تمہید کچھ باتوں کا سمجھنا ضروری ہے۔زندگی میں جائداد وغیرہ کی تقسیم ہبہ یعنی گفٹ کہلاتی ہے۔ہبہ یعنی گفٹ کا حکم یہ ہے کہ ہبہ کرتے ہوئےاولاد میں برابری کی جائے یعنی بیٹے اور بیٹیوں، سب کو برابر حصہ دیا جائے،بیٹیوں کو محروم کرنا یا بغیر کسی شرعی وجہ کے  اولاد میں سے کسی کو کم یا زیادہ دینا یہ عمل درست نہیں ہے،نیزہبہ کرتے ہوئے یہ بھی ضروری ہے کہ واہب یعنی ہبہ کرنے والاموہوب لہ(یعنی جس کو ہبہ کیا گیا ہے) کا مالکانہ تصرف کے اختیار کے ساتھ ہبہ کی جانے والی چیز پر مکمل قبضہ کروائے تاکہ ہبہ یعنی گفٹ کی تکمیل شرعی طریقے سے ہوجائے۔لہٰذا زندگی میں اگر اپنی مملوکہ چیزیں اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کا ارداہ ہو تو درج ذیل تفصیل کے مطابق تقسیم کرنا چاہیے۔

۱۔اولاد میں خواہ وہ بیٹا ہو یا بیٹی برابر حصہ تقسیم کرےاور ہر ایک کو اس کےحصے کا مالک بنا کر باقاعدہ تقسیم کرکے قبضہ کروائے ۔

۲۔اگر اولاد میں برابر حصہ تقسیم نہیں کیا اور برابر حصہ تقسیم نہ کرنے کی وجہ، کسی کو نقصان پہنچانا ہے تویہ عمل مکروہ تحریمی ہے ،اگر نقصان پہنچانا مقصود نہیں اور کوئی وجہ ترجیح بھی نہیں تو یہ عمل مکروہ تنزیہی ہے ،اس لیے کہ بہرحال اولاد میں سے ہر ایک کو خواہ وہ بیٹا ہو یا بیٹی برابرہبہ( گفٹ) کرنا یہ مستحب ہے،البتہ بعض فقہاء کی رائے کے مطابق یہ بھی جائز ہے کہ حصص میراث کے مطابق بیتے کو بیٹی سے دگنا ہبہ کرےلیکن اس سے زیادہ فرق بلاوجہ ممنوع ہے۔

۳۔ اولاد کو ہبہ کرتے ہوئے کسی معقول وجہ سے کمی بیشی کی جاسکتی ہے،مثلاً دینداری، امور دینیہ میں مشغول ہونا،خدمت یا زیادہ محتاج ہونا  وغیرہ اور اس طرح کی وجوہات کی وجہ سے کمی بیشی کرنا  مستحب ہے۔

۴۔اگر جائداد وغیرہ ہبہ کرنے کا ارادہ ہو تو باقاعدہ تقسیم کرکے مالک بنا کر قبضہ کروائے تاکہ ہبہ کی تکمیل شرعاً بھی ہوجائے، اسی طرح اگر جائداد وغیرہ مشترکہ طور پر ہبہ کرنے کا ارادہ ہو تب بھی بہر حال مالک بنا کر باقاعدہ  قبضہ کروانا ضروری ہے، جس کے لیے یہ طریقہ ممکن ہے کہ جو جائداد جن ورثاء کو ایک ساتھ ہبہ کی جائے اُن میں سے کسی ایک کو اس کی تقسیم کا وکیل بنادیا جائے اس طرح اُس وکیل کو تخلیہ کرادینے سے ہبہ مکمل  ہوجائے گا۔

اس تفصیل کے بعد سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر ملوک خان نے اپنی اولاد کو جائداد تقسیم کرکے باقاعدہ قبضہ کروادیا تھا تو یہ تقسیم شرعاً معتبر ہوگی، اور اگر تقسیم کا صرف تذکرہ کیا تھا باقاعدہ تقسیم کرکے قبضہ نہیں کروایا تھا تو یہ تقسیم شرعاً معتبر نہیں ہوگی،لہٰذا شرعاً ہبہ بھی درست نہیں ہوگا،سائل نے تقسیم کے حوالے سے فون پر اور بالمشافہ یہ وضاحت کی ہےکہ پہلی بیوی کی اولاد عمر میں بڑی تھی تو ان کو باقاعدہ تقسیم کرکے زمین دے دی تھی ،جبکہ دوسری بیوی کی اولاد عمر میں چھوٹی تھی تو ان کو  باقاعدہ قبضہ نہیں کروایا تھا، لہٰذا اگر دوسری بیوی کی اولاد میں سے ہر ایک کے لیے باقاعدہ الگ سے حصہ متعین کیا تھا یعنی یہ کہا تھا کہ زمین کا یہاں سے یہاں تک حصہ فلاں بیٹے کو دیا اور فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک حصہ دوسرے بیٹے کو دیا وغیرہ، تو یہ تقسیم شرعاً معتبر ہوگی،اگر چہ باقاعدہ قبضہ نہیں کروایا،البتہ اگر صرف یہ کہا تھا کہ یہ زمین فلاں فلاں بیٹے کو دے دی اور باقاعدہ الگ سےحصہ متعین نہیں کیا تھا تو یہ تقسیم شرعاً معتبر نہیں ہوگی،مذکورہ تفصیل تو تقسیم سے متعلق تھی،رہی  یہ بات کہ ملوک خان کی وراثت کون سی جائداد سے تقسیم کی جائے گی؟اس کے جواب میں تفصیل یہ ہے کہ وہ نواں حصہ جو ملوک خان نے اپنے لیے رکھا تھا اس حصے میں سے ملوک خان کی جائداد شرعی حصص کے اعتبار سے تمام ورثاء میں تقسیم کی جائے گی،اسی طرح ملوک خان کی زندگی میں فوت ہونے والے ان کے دونوں بیٹوں یعنی حفیظ اللہ اور شاہذ اللہ سے ملوک خان کو بحیثیت والد ہونے کےملنے والا حصہ بھی ملوک خان کے ورثاء میں سوال نمبر چار کے جواب میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق تقسیم کیا جائے گا،البتہ دوسری بیوی کی اولاد کو زمین میں سےجو حصہ دیا تھا  اس حصے کے حوالے سے شرعی حکم یہ ہے کہ درج بالا تفصیل کے مطابق اگر اس کی تقسیم شرعاً درست نہیں کی تھی تو ملوک خان کی وراثت میں زمین کا وہ حصہ بھی شامل ہوگا اور سوال نمبرچارکے جواب میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق ملوک خان کے تمام ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا،اوراگردوسری بیوی کی اولاد کو دیے جانے والے حصےکی تقسیم شرعاً درست کی تھی (یعنی دوسری بیوی کی اولاد میں سے ہر ایک کے لیے باقاعدہ الگ سے حصہ متعین کیا تھا یعنی یہ کہا تھا کہ زمین کا یہاں سے یہاں تک حصہ فلاں بیٹے کو دیا اور فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک حصہ دوسرے بیٹے کو دیا وغیرہ،اگرچہ قبضہ نہیں کروایا تھا) تو یہ تقسیم شرعاً معتبر ہوگی اور ملوک خان کی وراثت میں یہ حصہ شامل نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (7/ 288)
يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم كذا في المحيط وفي فتاوى قاضي خان رجل أمر شريكه بأن يدفع إلى ولده مالا فامتنع الشريك عن الأداء كان للابن أن يخاصمه إن لم يكن على وجه الهبة وإن كان على وجهها لا لأنه في الأول وكيل عن الأب وفي الثاني لا وهي غير تامة لعدم الملك لعدم القبض وفي الخلاصة المختار التسوية بين الذكر والأنثى في الهبة ولو كان ولده فاسقا فأراد أن يصرف ماله إلى وجوه الخير ويحرمه عن الميراث هذا خير من تركه لأن فيه إعانة على المعصية ولو كان ولده فاسقا لا يعطي له أكثر من قوته.
عيون المسائل للسمرقندي الحنفي (ص: 350)
التسوية في الهبة بين الابن والابنة
1733. رجل له ابن وابنة فأراد أن يهب لهما شيئاً فالأفضل أن يسوي بينهما في قول أبي يوسف، وقَالَ مُحَمَّدٌ: يجعل للذكر مثل حظ الانثيين. فإن وهب ماله كله للابن؟ قَالَ: هو آثم وأجيزه في القضاء.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 696)
وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 690)
(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل.
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5/ 93)
ولا تجوز في مشاع يقسم….والقبض في المشاع موجود من وجه دون وجه؛ لأن القبض عبارة عن كون الشيء في حيز القابض والمشاع ليس في حيزه من كل وجه؛ لأنه في حيزه من وجه وفي حيز شريكه من وجه وتمامها لا يحصل إلا بالقسمة؛ لأن الأنصباء بها تتميز وتجتمع وما لم يجتمع لا يصير محرزا أو يكون إحرازا ناقصا فلا ينهض لإفادة الملك

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

۲۰/ذو القعدۃ ۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب