021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دیہات میں جمعہ کا حکم
69592نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

کیا گاؤں میں جمعہ ہوسکتاہے؟اگرہوسکتاہےجیسا کہ بہت سے گاؤں میں ادا کیاجاتاہے،مثلاً پڈعیدن کےمضافات میں،چیھو،چوہڑجا،ڈاکھی شاخ،حاجی راجہ،وغیرہ میں قدیم زمانےسےاداکیاجاتاآرہاہے۔جمعے کےقائم کرنے کیا شرائط ہیں؟تفصیل سےجواب عنایت فرمائیں۔دلائل بھی ذکرفرمائیں تونوازش ہوگی۔ یہ وہ گاؤں ہیں جوپڈعیدن شہر سے ایک دو اور تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ہمارا گاؤں دین محمد آریجو،متل آریجو،نہر کے ساتھ گاؤں خان محمد آریجو، چکرواہ ان سب میں بڑےعرصہ سے جمعہ ہوتا آرہاہے۔اگرچہ یہ شہرکےمضافات سےبہت دورہیں۔اوران گاؤں میں ضروریات زندگی کی تمام چیزیں دستیاب نہیں ہیں۔ان میں یونین کونسل، ہسپتال،سبزیوں کی دکانیں نہیں ہیں۔کیا ان میں جمعہ ہوگایا نہیں؟ تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

گاؤں میں جمعہ کی نماز کا صحیح ہونا مجتہدینِ کرام کے درمیان مختلف فیہ ہے، فقہائےاحناف کےنزدیک جمعہ کے جائزہونےکےلیےضروری ہےکہ (1)بڑاشہریا شہر کا مضافاتی علاقہ ہوجس سےشہرکی ضروریات پوری ہوتی ہوں (2)یا قصبہ اور قصبہ نمابڑا گاؤں ہو جسےعرف عام میں بڑا گاؤں سمجھا جاتا ہو،کم ازکم ڈھائی تین ہزار کی آبادی پر مشتمل ہو،وہاں بازار ہوں،عمومی ضرورت کی تمام چیزیں بآسانی دستیاب ہوں،علاج و معالجہ کے لیے ہسپتال و کلینک،ڈاکخانہ،تھانہ یا ثالثی اورپنچایت کا نظام ہو،متمدن زندگی سےمتعلق ضروری پیشوں سے وابستہ لوگ موجود ہوں،اگر ان میں سے کوئی صورت نہ ہوتو جمعہ قائم کرنا درست نہیں ۔سوال میں ذکر کردہ کسی ایک گاؤں میں بھی یہ شرائط پوری طرح نہیں پائی جاتیں،اس لیےان میں اصولاً نماز جمعہ کا قیا م درست نہیں،مسئلہ سمجھاکر حکمت عملی سے لوگوں کی ذہن سازی کی جائے اورجمعہ کے دن ظہر کی نماز پڑھنے کی ترغیب دی جائے اور اگر جمعہ بند کرانے کی صورت میں فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو حسب سابق جمعہ کی نماز پڑھی جاسکتی ہے، باہمی جھگڑے اور اختلاف سے اجتناب کیا جائے۔البتہ ان میں کسی جگہ پر نئے سرےسے جمعہ یا عیدین کی جماعت قائم نہیں کرنی چاہیے۔نیز ایسی صورت میں ایک حل یہ بھی ہے کہ ضلعی انتظامیہ سے جمعہ قائم کرنے کی اجازت لے لی جائے ،کیونکہ انتظامیہ کےاجازت دے دینے سے دیہات میں شروع کیا ہوا جمعہ درست ہوجاتا ہے۔البتہ اس سلسلے میں یہ بات ملحوظ رہے کہ انتظامیہ سے مراد وہ افسران ہیں جنہیں اس علاقےمیں احکامات نافذ کرنےکا اختیارہے ،جیسے ضلعی ناظم،ڈی پی او، مجسٹریٹ وغیرہ اور کسی صاحب اختیارکی اجازت اس وقت تک معتبررہے گی جب تک اس علاقے میں اس کے اختیارات باقی رہیں گے، وفات یا تبادلے کی صورت میں نئے حاکم کادوبارہ اجازت دیناضروری ہوگا۔
حوالہ جات
مصنف ابن أبي شيبة (1/ 439) عن علي رضی اللہ تعالی عنہ ، قال:لا تشريق، ولا جمعة، إلا في مصر جامع. مصنف عبد الرزاق (169/3) عن أيوب، أن عمر بن عبد العزيز كتب إلى أهل المياه بين مكة والمدينة :أن تجمعوا، فقال عطاء عند ذلك: فقد بلغنا أن لا جمعة، إلا في مصر جامع. إعلاء السنن (5/247): عن علی رضی الله عنه أنه قال: "لا جمعة، ولا تشریق إلا فی مصر جامع". أخرجه أبو عبید بإسناد صحیح إلیه موقوفاً. ومعناه لا صلاة جمعة، ولا صلاة عید. کذا فی فتح البار'ی، ورواه عبدالرزاق فی مصنفه: أنبأ الثوری عن زبید الأیامی عن سعد بن عبیدة عن أبی عبد الرحمن السلمی عن علی قال: "لا تشریق، ولا جمعة إلا فی مصر جامع"، کذا فی نصب الرایة، وفی الدرایة: إسناده صحیح. حجة الله البالغة(2/ 47): وقد تلقت الأمة تلقيا معنويا من غير تلقي لفظ، أنه يشترط في الجمعة الجماعة ونوع من التمدن. فيض الباري على صحيح البخاري (2/ 423): واعلم أن القرية والمصر من الأشياء العرفية التي لا تكاد تنضبط بحال وإن نص، ولذا ترك الفقهاء تعريف المصر على العرف ،كما ذكره في البدائع. الدر المختار مع حاشية ابن عابدين (2/ 137) (ويشترط لصحتها) سبعة أشياء: الأول: (المصر وهو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه فتوى أكثر الفقهاء .مجتبى، لظهور التواني في الأحكام،وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاض قدر على إقامة الحدود ،كما حررناه فيما علقناه على الملتقى. وفي القهستاني: إذن الحاكم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعة اتفاقًا على ما قاله السرخسي، وإذا اتصل به الحكم صار مجمعًا عليه فليحفظ. (قوله: له أمير وقاض).....قال الشيخ إسماعيل: ثم المراد من الأمير من يحرس الناس ويمنع المفسدين ويقوي أحكام الشرع، كذا في الرقائق. وحاصله أن يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم كما فسره به في العناية۔ اھ. (قوله: يقدر إلخ) أفرد الضمير تبعاً للهداية لعوده على القاضي لأن ذلك وظيفته بخلاف الأمير لما مر، وفي التعبير بيقدر رد على صدر الشريعة كما علمته. وفي شرح الشيخ إسماعيل عن الدهلوي ليس المراد تنفيذ جميع الأحكام بالفعل؛ إذ الجمعة أقيمت في عهد أظلم الناس وهو الحجاج وإنه ما كان ينفذ جميع الأحكام، بل المراد - والله أعلم - اقتداره على ذلك اھ.ونقل مثله في حاشية أبي السعود عن رسالة العلامة نوح أفندي......وظاهر ما مر عن القهستاني أن مجرد أمر السلطان أو القاضي ببناء المسجد وأدائها فيه حكم رافع للخلاف بلا دعوى وحادثة. وفي قضاء الأشباه: أمر القاضي حكم كقوله: سلم المحدود إلى المدعي، والأمر بدفع الدين، والأمر بحبسه إلخ وأفتى ابن نجيم بأن تزويج القاضي الصغيرة حكم رافع للخلاف ليس لغيره نقضه (قوله: وإذا اتصل به الحكم إلخ) قد علمت أن عبارة القهستاني صريحة في أن مجرد الأمر رافع للخلاف بناء على أن مجرد أمره حكم.....قوله: (إذن عام) أي لكل خطيب أن يستنيب لا لكل شخص أن يخطب في أي مسجد أراد ح.أقول: لكن لا يبقى إلى اليوم الاذن بعدموت السلطان الآذن بذلك إلا إذا أذن به أيضا سلطان زماننا نصره الله تعالى كما بينته في تنقيح الحامدية وسنذكر في باب العيد عن شرح المنية ما يدل عليه أيضا، فتنبه. البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي (4 / 367) ولوأن إماما مصر مصرا ،ثم نفر الناس عنه لخوف عدو أو ما أشبه ذلك، ثم عادوا إليه، فإنهم لا يجمعوا إلا بإذن مستأنف من الامام. كذا في الخلاصة. کفایۃ المفتی ( 3/ 251 ط: حقانيه) قلت: وهذا وإن كان غير موافقة لما عليه الحنفية، ولكنه أشد مرافقة لمصالح الإسلامية الاجتماعية خصوصًا في هذا القطر،وفي هذا الزمان ،فإن أعداء الإسلام يظفرون بمقاصدهم المشومة في القرى لاتقام فيها الجمعة،ويخيبون في مواضع إقامةالجمعة، والتوفيق من الله عز وجل وحفاظة الإسلام خير من الإصرار على تركها والمسألة مجتهدفيها‘‘
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سیف اللہ تونسوی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب