021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
باپ کی زندگی میں وفات پانے والی اولاد وارث نہیں
69608میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہمارے نانا جان مولوی داد محمد نے اپنی زندگی میں اپنے چار بیٹوں :گل محمد ،نظر محمد، میرمحمداورعبد الغفار کوڈیرہ انھیار میں 220 جریب زمین دی۔ اس زمین میں میری والدہ اور میری خالہ کو وراثت نہیں دی گئی ۔ نہ دینے کی وجہ ہمارے علم میں نہیں، کیونکہ بہت پرانی بات ہے۔ میری والدہ اورمیری خالہ بھی فوت ہوگئیں، پھر نانا جان بھی فوت ہوگئے۔اب ایک ماموں میر محمد ہیں اور دوسرے ماموں کے بیٹے ہیں ۔ ماموں کےبیٹےکبھی کہتے ہیں کہ ابا نے بہنوں کا حصہ نہیں دیا تھا اورکبھی کہتے ہیں کہ دادی نے ہمارے نام کرایا تھا وغیرہ۔اب پوچھنا یہ کہ اس 220 جریب میں ہمارا حصہ ہے یا نہیں ؟ براہ کرم شریعت کی روشنی میں جواب بتائیں تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ ( مستفتی نے فون پر وضاحت کی ہے کہ ان کے نانا کی زندگی میں ہی ان کی خالہ اور والدہ کی وفات ہوگئی تھی)

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

میراث میں حصہ صرف ان ورثا کو ملتا ہےجو میت کے انتقال کے وقت زندہ ہوں،چونکہ آپ کی والدہ صاحبہ اور خالہ جان کا انتقال آپ کے نانا مرحوم کی زندگی میں ہوگیا تھا،اس لیے شرعاً وہ دونوں آپ کے نانا کے ترکے میں حقدار نہیں۔لہذا اگر آپ کےنانا نے اپنی زندگی میں جائیداد اپنے بیٹوں کو ہبہ(گفٹ) کرکے حوالے نہ بھی کی ہو، تب بھی آپ کی طرف سےمیراث کا مطالبہ درست نہیں ہے۔

حوالہ جات
القرآن الکریم(النساء: 11): {يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا} السراجیۃ فی الفرائض(2,3( قال علماؤنا رحمهم الله تعالی: تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبة: ألأول يبدأ بتكفينه وتجهيزه من غیر تبذیر ولاتقتیر، ثم تقضی دیونه من جمیع ما بقی من ماله، ثم تنفذ وصایاه من ثلث ما بقی بعد الدین، ثم یقسم الباقی بین ورثته بالکتاب والسنة وإجماع الأمة. فی رد المحتار(6 / 758): والمراد بالفرائض السهام المقدرة كما مر فيدخل فيه العصبات ، وذو الرحم لأن سهامهم مقدرة وإن كانت بتقدير غير صريح ، وموضوعه : التركات ، وغايته : إيصال الحقوق لأربابها ، وأركانه : ثلاثة وارث ومورث وموروث . وشروطه : ثلاثة: موت مورث حقيقة ، أو حكما كمفقود ، أو تقديرا كجنين فيه غرةووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل ۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سیف اللہ تونسوی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب