021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حدیث لولاک لما خلقت الافلاک کی تحقیق
69705حدیث سے متعلق مسائل کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

۱۔ کیا ایسا کہنا جائز ہے ؟
"اگر ہمارے نبی ﷺ نہ ہوتے تو حضرت آدم علیہ السلام یا دوسرا کوئی نبی پیدا نہیں ہوتا"
لا بقوله لولا نبينا لم يخلق آدم عليه السلام وهو خطأ
(البحرالرائق، کتاب السیر ، باب أحكام المرتدين ، 5/204)

۲۔اس بات کی دلیل شرعی کیا ہے ؟نیز کیا ایسا کہنا جائز ہے ؟
"باقی انبیاء علیہم السلام کو حضور ﷺ کے واسطہ اور طفیل  سےنبوت و کمالات ملے"
(لا بقوله لولا نبينا لم يخلق آدم)
قال في التتارخانیة وفي جواھر الفتاویٰ: ھل یجوز أن یقال لولا نبینا محمد ﷺ لما خلق اللہ تعالیٰ آدم ؟ قال: ھذا شيء یذکرہ الوعاظ علی رؤوس المنابر یریدون به تعظیم  محمد علیه الصلاۃ والسلام والأولی أن یحترزوا عن أمثال ھذا فإن النبي علیه الصلاۃ والسلام وإن کان عظیم المنزلة والمرتبة عند اللہ تعالیٰ کان لکل نبي من الأنبیاء علیھم السلام منزلة و مرتبة وخاصیة لیست لغیرہ فیکون کل نبي أصلاً بنفسه(منحة الخالق علی البحرائق)

۳۔"لولا محمد ما  خلقت  آدم"کے مضمون میں جو روایات وارد ہیں کیا وہ ثابت ہیں ؟اور اگربالفرض ثابت ہوں تو ان سے علم ظنی حاصل ہو گا یا علمِ قطعی ؟اور کیا  "اولیت فی الخلق" کے عقیدے کیلئے  ان روایات  سے قطعی دلیل  حاصل ہوتی ہے ؟
(نواد رالحدیث از شیخ الحدیث مولانا یونس جونپوریؒ ، 451-459)

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس مقام پر دو باتیں  الگ الگ قابل تحقیق ہیں،جبکہ سؤال میں دونوں کو خلط کیا گیا ہے:

۱۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولیت فی الخلق  کا عقیدہ:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولیت فی الخلق باعتبار نور رسالت ونبوت کے تواس بارے میں اگرچہ مشہور روایت اول ماخلق اللہ نوری لفظاموضوع ہے، لیکن فتاوی رشیدیہ:ص ۱۶۱پرشیخ عبد الحق رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس کی کچھ اصل ہے۔نیز امداد الفتاوی:ج۵،ص ۷۹ پراولیت فی الخلق کے اثبات کے لیے اس قسم کی ایک حدیث سے استدلال کیا گیا ہے،اس کے علاوہ دیگر متعدد روایات بلکہ نصوص قرآن مجید سے بھی یہ مضمون اشارۃ ثابت ہے،چنانچہ دارمی کی روایت ہے کہ آسمان وزمین کے پیدا کرنے سے کئی ہزار سال پہلے اللہ تعالی نے سورہ طہ اور یس کی کی تلاوت کی تو فرشتوں نے اس کتاب اللہ یعنی قرآن مجید اور اس امت کی تحسین فرمائی،اور سورہ طہ اورسورہ یس کی شروعات ہی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وصف رسالت کے ساتھ خطاب موجود ہے۔اسی طرح میثاق انبیاء سے متعلق سورہ ال عمران کی آیت بھی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باعتبار نور رسالت  خلق بمعنی تقدیر وتجویزمیں تمام انبیاء سے مقدم ہیں، اگرچہ باعتبار وجود جسد عنصری کے سب سے مؤخر ہیں۔ جیسا کہ اس آیت کے تحت تفسیر عثمانی اور معارف القرآن میں بھی ایسا ہی لکھا ہے۔

تفسیر عثمانی میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:

"کیونکہ ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی مخزن الکمالات ہستی تھی جو عالم غیب میں سب سے پہلے اور عالم شہادت میں سب انبیاء کے بعد جلوہ افروز ہونے والی تھی۔"

 حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی دیوبندی رحمہ اللہ تعالی نےاپنی مایہ ناز تفسیرمعارف القرآن میں آیت میثاق انبیاء کے تحت لکھا ہے کہ "بلکہ آپ کی نبوت کا زمانہ اتنا وسیع ہے کہ آدم علیہ السلام کی نبوت سے پہلے شروع ہوتا ہے،جیساکہ ایک حدیث  شریف میں آپ فرماتے ہیں کہ کنت نبیا وادم بین الروح والجسد ۔"

۲۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باعث اور غایت ایجاد عالم ہیں یا نہیں؟

دوسری بات کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باعث اور غایت ایجاد عالم ہیں یا نہیں ؟ تواس بارے میں بھی مشہور "حدیث لولاک" جمہوراہل علم(مقاصد حسنہ ،تذکرۃ الموضوعات،آثار مرفوعہ  کےمؤلفین کے علاوہ جمہوراہل فتاوی  مثلا فتاوی محمودیہ،خیر الفتاوی،احسن الفتاوی وغیرہ) کےنزدیک اگرچہ  لفظا موضوع ہے،لیکن معنوی لحاظ سے یہ بھی صحیح ہے۔ اس لیے کہ دنیا وآخرت کے بنانے سے مقصداور غایت اللہ کی الوہیت اور معبودیت کا اظہار اور جن وانس سے اس کا اقرار مطلوب ہے اور وہ موقوف ہےرسالت انبیاء پر،کیونکہ بندہ  اللہ کی مرضی  اپنی عقل سے معلوم نہیں کرسکتا اوررسالت عامہ اور محکمہ(کاملہ) وہ رسالت محمدیہ ہی ہے، لہذا معلوم ہوا کہ غایت اور باعث ایجاد عالم رسالت محمدی ہوئی۔

یہاں سے معلوم ہوا کہ جو لوگ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کو بشریت کے اعتبار سے خلق میں مقدم سمجھتے ہیں یا آپ کو نور کے ظاہری مفہوم کے اعتبارسے اول  فی الخلق مانتے ہیں یہ دونوں باتیں درست نہیں،بلکہ غلو ہیں اور جن فقہاء کرام نے اس حدیث کے مفہوم کو غلط قرار دیا ہے ان کا مطلب یہ ہے کہ وصف رسالت میں ہر نبی مستقل ہے، کسی نبی کی رسالت دوسرے نبی کی رسالت کی وجہ سے نہیں،یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت دیگر انبیاء کی رسالت کے لیے سبب اور علت نہیں، لان کلمۃ "لولا" تدل علی سببیۃ الاول للثانی  ،البتہ تمام انبیاء کی رسالتوں کے لیے علت غائیہ ضرور ہےاور اس کی نفی فقہاء نے نہیں کی،لہذافقہاء کامطلب یہ ہے کہ اس حدیث میں لولا سببیت کے ظاہری ومعروف مفہوم میں نہیں بلکہ علت غائیہ کے معنی ومفہوم میں ہے اور یہ بھی مفہوم سببیت کا ایک درجہ ہے اور اس معنی کے مراد لینے میں کوئی فساد بھی لازم نہیں آتا۔

 شبہ کا جواب:

جب دونوں حدیثوں کا مفہوم دیگر قطعی نصوص سے ثابت ہے تو اس پر اعتقاد کی بناء پر کوئی شبہ اور اعتراض بھی وارد نہیں ہوتا۔

 مذکورہ تفصیل سے استفتاء میں ذکرکردہ نکات کا جواب ان شاء اللہ حاصل ہوگیا۔

حوالہ جات
{وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ } [آل عمران: 81]
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (4/ 1478)
وعن النعمان بن بشير قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: " «إن الله كتب كتابا قبل أن يخلق السماوات والأرض بألفي عام، أنزل منه آيتين ختم بهما سورة البقرة، ولا تقرآن في دار ثلاث ليال فيقربها الشيطان» " رواه الترمذي والدارمي، وقال الترمذي: هذا حديث غريب.
 (وعن النعمان) بضم النون (ابن بشير قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: إن الله كتب كتابا) ، أي أمر ملائكته بكتابة القرآن في اللوح المحفوظ،
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (4/ 1479)
وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: " «إن الله - تعالى - قرأ طه ويس قبل أن يخلق السماوات والأرض بألف عام، فلما سمعت الملائكة القرآن قالت: طوبى لأمة ينزل هذا عليها وطوبى لأجواف تحمل هذا وطوبى لألسنة تتكلم بهذا» " رواه الدارمي.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۷ذیقعدہ۱۴۴۱ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب