021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بھتیجےاوربھتیجیوں کامیراث میں حصہ
69753میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میں عرض کرنا چاہتی ہوں کہ میں بیوہ ہوں،میرے پانچ  بچے ہیں،جن میں چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ان پانچ بچوں میں سب سے بڑی بیٹی کا انتقال تین سال پہلے ہو چکا ہے۔ (اس کے بھی چار بچے یعنی  دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں) میری تمام اولاد شادی شدہ ہے۔ سب سے بڑی بیٹی صدف مرحومہ پھر بیٹا اشرف، بیٹیاں: غزل، حنا، ندا، کے نام سے ہیں۔ میرے دیور کے ساتھ میری بیٹی حنا رہتی تھی۔ دیور غیر شادی شدہ تھے۔ان کا پچھلے مہینے انتقال ہو ا ہے۔ اپنے انتقال سے پہلے جس فلیٹ میں وہ رہائش پذیر تھے  اس کی فائل کسی عزیز کے ذریعے میرے حوالے کر گئے ہیں۔ میرے دیور جن کا نام محمود احمد ہے اپنا فلیٹ کسی ٹرسٹ کو دینا چاہتے تھے، مگر اپنی زندگی میں نہیں دیا۔ اب میری اولاد میں جھگڑے شروع ہو چکے ہیں۔ میرے دیور کے بینک اکاؤنٹ میں پندرہ لاکھ روپے موجود ہیں۔ میری دو بیٹیاں حنا اور ندا  اس پر بضد ہیں کہ فلیٹ بیچ کر کل رقم ان دونوں میں تقسیم ہو اور بینک کے پیسے پانچ حصوں میں تقسیم  ہو ں۔  میری رہنمائی فرمائیں کہ آیا اگر  میں یہ فلیٹ کسی  ٹرسٹ کو دے دوں تو آخرت میں میری پکڑ تو نہیں ہوگی۔ شریعت کی رو سے رہنمائی فرمائیں۔ آپ کے جواب کی منتظرر ہوں گی۔ 

نوٹ:محمود احمد صاحب کی زندگی  میں اس کے والدین ،بھائی اور تین بہنیں انتقال کر چکی ہیں۔ ان کےعلاوہ ان کا کوئی بھائی یا بہن نہیں ہے۔

مستفتی نے فون پر بتایا کہ مرحوم کےدادا، دادی اور نانی  میں سے کوئی ان کی وفات کے وقت زندہ نہ تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مرحوم محمود احمدنے اپنے انتقال کے وقت بینک اکاؤنٹ میں موجود نقد رقم اورفلیٹ سمیت جو سونا، چاندی، جائیداد، مکان، غرض جو کچھ چھوٹا بڑا ساز و سامان چھوڑا ہے، یا اگر کسی کے ذمہ ان کا قرض تھا، تو وہ سب اس کا ترکہ ہے، اس میں سے سب سے پہلے ان کی تجہیز و تکفین کے  متوسط اخراجات نکالے جائیں گے، بشرطیکہ یہ اخراجات کسی نے بطورِ احسان ادا نہ کیے ہوں۔ اس کے بعد دیکھا جائے گا، اگر ان کے ذمے کسی کا قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے گا۔ اس کے بعد اگر انہوں نے کسی غیر وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی ترکہ کی حد تک اس کو پورا کیا جائے گا۔

اس کے بعد جو کچھ بچے سب مرحوم کے بھتیجے  محمداشرف کو ملے گا۔بھتیجیاں یا فوت ہونے والی بھتیجی کی اولادمیراث میں حصے دار نہیں ہے۔چونکہ مرحوم محمود احمد کے تمام ترکے  کا وارث اس کا بھتیجا محمد  اشرف ہے، اس لیے آپ شرعاً  اب  یہ فلیٹ کسی ٹرسٹ  وغیرہ کو نہیں دے سکتیں۔اگر آپ ایسا کریں گی تو حقیقی وارث کی حق تلفی کی وجہ سے سخت گناہگار ہوں گی۔ ہاں محمد اشرف اپنی خوشی سے اپنے چچا کے ایصال ثواب کے لیےایساکرنا چاہے تو وہ کرسکتا ہے،شرعاً اس پر بھی لازم نہیں۔

حوالہ جات
صحيح البخاري(حدیث:6732)
عن ابن عباس - رضي الله عنه -:أن النبي ﷺ  قال: ألحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فهو لأولى رجل ذكر .
صحیح مسلم 🙁 حدیث: 4228)
اقسموا المال بين أهل الفرائض على كتاب الله فما تركت الفرائض فلأولى رجل ذكر.
الاختيار لتعليل المختار(5/86)
 قال: (يبدأ من تركة الميت بتجهيزه ودفنه على قدرها، ثم تقضى ديونه، ثم تنفذ وصاياه من ثلث ماله، ثم يقسم الباقي بين ورثته) فهذه الحقوق الأربعة تتعلق بتركة الميت على هذا الترتيب.
الدر المختار مع حاشية ابن عابدين(6/783-784، ط:سعید)
قال الحصكفي رحمه الله:
"..... ابن الأخ لایعصب أخته کالعم لایعصب أخته وابن العم لایعصب أخته وابن المعتق لایعصب أخته بل المال للذکر دون الأنثیٰ لأنها من ذوي الأرحام، قال في الرحبیة:
 ولیس ابن الأخ بالمعصب                                                                                                                           من مثله أو فوقه في النسب 
 بخلاف ابن الابن وإن سفل فإنه يعصب من مثله أو فوقه ممن لم تكن ذات سهم ويسقط من دونه ".
قال ابن عابدين رحمه الله:
(قوله: لتصريحهم إلخ) حاصله كما في السراجية والملتقى أن من لا فرض لها من الإناث وأخوها عصبة لا تصير عصبة بأخيها،وقدمناه منظوما (قوله: لأنهامن ذوي الأرحام) أي الأخت في هذه الصور، لكن بنت المعتق ليست من ذوي أرحام الميت، فالمراد من عداها وإنما لا يعصبها أخوها؛ لأنه ليس للنساء من الولاء إلا ما أعتقن.
الدر المختار مع حاشية ابن عابدين(6  /  758، ط:سعید)
والمراد بالفرائض السهام المقدرة كما مر فيدخل فيه العصبات ، وذو الرحم لأن سهامهم مقدرة وإن كانت بتقدير غير صريح ، وموضوعه : التركات ، وغايته : إيصال الحقوق لأربابها ، وأركانه : ثلاثة وارث ومورث وموروث . وشروطه : ثلاثة : موت مورث حقيقة ، أو حكما كمفقود ، أو تقديرا كجنين فيه  غرةووجود وارثه     عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه.

سیف اللہ تونسوی

 دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

01/ذی الحجہ1441ھ 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سیف اللہ تونسوی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب