021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بہن بھائیوں کی میراث کا حکم
69824میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

سوال یہ ہے کہ ہمارا ایک بھائی ہے اور ہم چار بہنیں ہیں ۔ والد صاحب کے نام گھر اور دکانیں تھیں ، جوکہ والد صاحب نے زندگی میں بیٹے کو تحفہ میں دے دیں اور ان کے نام کردیں ۔ اگر چہ جب تک ہوش وحواس میں تھے دکانوں کا کرایہ خود وصول کرتے رہے ۔ آخری ایام میں بیماری کی وجہ سے ہوش و حواس میں نہ ہونے کی وجہ سے بیٹا وصول کرتا تھا۔

جواب طلب امر یہ ہے کہ اگر ہم بہنیں جائیداد میں حصہ لینا چاہیں تو ہمارا حق بنتا ہے  یا نہیں ؟ اور اگر بنتا ہے تو کس کو کتنا حصہ ملے گا۔

تنقیح:مرحوم کے والدین اور مرحوم کی بیوی مرحوم کی زندگی میں انتقال کرگئی تھی  ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مرحوم کا اپنی زندگی میں کسی وارث کو کچھ دینا ہبہ ( گفٹ) ہے۔ شرعاً ہبہ کےپورا  ہونے کے لیے ضروری  ہے کہ جو چیز ہبہ کی جائے وارث کواس پر باقاعدہ   قبضہ کروادیا جائے ۔لہذا  جو مکان اور دکانیں  آپ کے والد نےاپنی زندگی میں  اپنے بیٹے کے نام کی تھیں  ،ان میں ہبہ کے تام ہونے کے لیے  اُن کو ہبہ کرتے وقت اپنی  رہائش اور مملوکہ اشیاء سے خالی کرکےان  کے قبضہ میں دینا ضروری تھا۔

لہذا صورت مسئولہ  میں اگر مرحوم نے  ہبہ کرتے وقت شرعی طریقے سے  ان مکان اور دوکانوں پراپنے بیٹے  کا قبضہ کروادیا تھا تو  اب وہ مکان  اور دکانیں اُس کی ملکیت ہیں۔مرحوم کے ترکہ میں شامل نہیں ہوں گی اور اس مکان اور دکانوں میں بہنوں کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ البتہ  اگرمرحوم نے  صرف کاغذی کاروائی کی حد تک  مکان اور دکانیں اپنے بیٹے کے نام کی تھیں ، مالکانہ تمام تصرفات  مرحوم نے اپنے پاس رکھے ہوئے تھے تو محض اُس  کے نام کرنے سے وہ مکان اوردکانیں اُس کی ملکیت شمار نہیں ہوں گی ،بلکہ بدستور مرحوم کی ملکیت میں  رہیں گی اور مرحوم کے تمام ورثاء میں شرعی طریقہ میراث کے اعتبار سے تقسیم ہوں گی ۔

لہذا مرحوم نے بوقت انتقال  بشمول گھر اوردکانوں کے اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولی و غیر منقولی سازو سامان چھوڑا ہے وہ سب مرحوم کا ترکہ  ہے ۔ اس میں سے سب سے پہلے مرحوم کے کفن دفن کے متوسط اخراجات نکالے جائیں، البتہ اگر کسی نے بطور احسان  ادا کر دیئے ہوں تو پھر یہ اخراجات نکالنے کی ضرورت نہیں ۔ اس کے بعد مرحوم کا  وہ قرض  ادا کیا جائے  جس کی ادئیگی مرحوم کے ذمہ  واجب ہو۔ اس کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ترکہ  میں سے ایک تہائی(1/3) کی حد  تک اس پر عمل کیا جائے۔اس کے بعد جو ترکہ باقی بچے   اس کو کل 6 حصوں میں برابر تقسیم کرکے مرحوم کے  بیٹے کو دو حصے اور ہر بیٹی کو ایک  حصہ دیاجائے ۔ تفصیل کے لیے ذیل کا نقشہ ملاحظہ کریں :

نمبر شمار

ورثاء

عددی حصہ

فیصدی حصہ

1

بیٹا

2

33.3333%

2

پہلی بیٹی

1

16.6666%

3

دوسری بیٹی

1

16.6666%

4

تیسری بیٹی

1

16.6666%

5

چوتھی بیٹی

1

16.6666%

کل

 

6

100%

حوالہ جات
القرآن الکریم[النساء: 12]
{ يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ }
الفتاوى الهندية (4/ 374)
ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة وأن يكون الموهوب متميزا عن غير الموهوب ولا يكون متصلا ولا مشغولا بغير الموهوب ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض ۔

طلحہ بن قاسم

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

10/01/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طلحہ بن قاسم

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب