021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بروکر ی کی ایک مخصوص صورت کا حکم﴿بروکر کوپلاٹ مخصوص قیمت سے مہنگابیچنے کااختیار دینا،دونوں طرف سے کمیشن لینا﴾
69772اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلدلال اور ایجنٹ کے احکام

سوال

ایک آدمی بروکر سے کہتا ہے کہ میرا یہ مکان یا پلاٹ دو لاکھ تیس ہزار روپے کا ہے ۔اس لیے اگر تم نے اس کو اس سے مہنگا بیچ دیا تو اوپر کی رقم تمہاری ۔ مجھے صرف دو لاکھ تیس ہزار روپے چاہیں۔تو کیا اس طرح بروکری کرنا جائز ہے ؟جبکہ مکا ن جس کا ہے اس نے خود اس کی اجازت دی ہو۔نیز جس کے لیے خرید رہا ہے اسے یہ بات معلوم نہیں ہے ،بلکہ خریدار سے بھی یہ دو فیصد اپنی رقم وصول کرتا ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اجارہ کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اجرت طے شدہ اور معلوم ہو ۔اجرت کے مجہول ہونے سے اجارہ فاسد ہوجاتا ہے ۔لہذا صورت مذکورہ میں احناف  کے نزدیک اس طرح معاملہ کرنا درست نہیں ہے ،بلکہ ضروری ہے کہ کوئی اجرت فیصد میں یا متعین رقم کی صورت میں طے کر لی جائے ۔البتہ یہ صورت اس طرح جائز ہوسکتی ہے کہ کچھ اجرت (چاہے معمولی ہی ہو) متعین طور پر طے کرلی جائے اور اس کے ساتھ یہ بات بھی طے کرلی جائے کہ 2 لاکھ تیس ہزار سے زائد جتنی قیمت ہو وہ بھی لے لے ۔

نیز مذکورہ صورت میں  بروکر بیچنے والے  کا وکیل ہے،اس لیے کہ اس صورت میں معاملہ بروکر خود  کر تا ہے،بائع نہیں کرتا ،لہذا اس کے لیے صرف بیچنے والے سے ہی اجرت لینا جائز ہے ۔خریدار سے اجرت لینا جائز نہیں ہے ۔

حوالہ جات
صحيح البخاري (3/ 92)
ولم ير ابن سيرين، وعطاء، وإبراهيم، والحسن بأجر السمسار بأسا وقال ابن عباس: " لا بأس أن يقول: بع هذا الثوب، فما زاد على كذا وكذا، فهو لك " وقال ابن سيرين: " إذا قال: بعه بكذا، فما كان من ربح فهو لك، أو بيني وبينك، فلا بأس به " وقال النبي صلى الله عليه وسلم: «المسلمون عند شروطهم»
الفتاوى الهندية (4/ 451)
دفع ثوبا إليه وقال بعه بعشرة فما زاد فهو بيني وبينك قال أبو يوسف رحمه الله تعالى إن باعه بعشرة أو لم يبعه فلا أجر له وإن تعب له في ذلك ولو باعه باثني عشر أو أكثر فله أجر مثل عمله وعليه الفتوى هكذا في الغياثية
فيض الباري (4/ 455)
وأجرته حلال عندنا، سواء كان من جهة البائع، أو المشتري.قوله: (بع هذا الثوب، فما زاد على كذا وكذا فهو لك) ... إلخ، وهذه الإجارة فاسدة عندنا لجهالة الأجرة، فيستحق أجرة المثل، على ما هو المسألة في الإجارة الفاسدة.
النتف في الفتاوى (2/ 575)
وكذلك لو قال بع هذا الثوب بعشرة دراهم فما زاد فهو لك وان فعل فله اجر المثل۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 46)
(تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدها) كجهالة مأجور أو أجرةأو مدة أو عمل، وكشرط طعام عبد وعلف دابة ومرمة الدار أو مغارمها وعشر أو خراج أو مؤنة رد أشبا۔
المغني (5/ 270)
 إذا قال بع هذا الثوب بعشرة فما زاد عليها فهو لك صح واستحق الزيادة وقال الشافعي : لا يصح ولنا أن ابن عباس كان لا يرى بذلك بأسا ولأنه يتصرف في ماله بإذنه فصح شرط الربح له في الثاني كالمضارب والعامل في المساقاة ۔

طلحہ بن قاسم

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

20/12/1441

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طلحہ بن قاسم

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب