69848 | طلاق کے احکام | الفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان |
سوال
مفتی صاحب میں نے اپنی ساس سے غصے میں یہ الفاظ کہے کہ اگر تم رشتہ ختم کرنے کی نیت سے آرہے ہو تو یہ ذہن بناکر آنا کہ میں اس کو بھی نہیں رکھوں گا،اس کو بھی تمہارے ساتھ بھیجوں گا،میں نے یہ میں پکی نیت کی ہوئی تھی کہ اگر وہ لوگ آئے تو میں یہی کروں گا،کیا بیوی سے متعلق میرے کہے ہوئے ان الفاظ سے طلاق واقع ہوجائے گی؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
چونکہ مذکورہ الفاظ ساس کے آپ کے پاس آنے کی صورت میں اس رشتے کو ختم کرنے کے ارادے کے اظہار پر دلالت کرتے ہیں، فی الحال رشتہ ختم کرنے کی کوئی بات نہیں کی،اس لیے ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
حوالہ جات
"البحر الرائق" (3/ 271):
"وليس منه أطلقك بصيغة المضارع إلا إذا غلب استعماله في الحال كما في فتح القدير".
وفی منحة الخالق:" (قوله: إلا إذا غلب استعماله في الحال) قال الرملي: يستفاد منه الوقوع بقوله تكوني طالقا أو تكون طالقا إذ هو الغالب في كلام أهل بلادنا تأمل اهـ.
"الفتاوى الهندية "(1/ 384):
"في المحيط لو قال بالعربية أطلق لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقا".
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم بالصواب
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
04/محرم 1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق صاحب | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |