021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میں اس کو نہیں رکھوں گا،اس کو بھی تمہارے ساتھ بھیجوں گا
69848طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

مفتی صاحب میں نے اپنی ساس سے غصے میں یہ الفاظ کہے کہ اگر تم رشتہ ختم کرنے کی نیت سے آرہے ہو تو یہ ذہن بناکر آنا کہ میں اس کو بھی نہیں رکھوں گا،اس کو بھی تمہارے ساتھ بھیجوں گا،میں نے یہ میں پکی نیت کی ہوئی تھی کہ اگر وہ  لوگ آئے تو میں یہی کروں گا،کیا بیوی سے متعلق میرے کہے ہوئے ان الفاظ سے طلاق واقع ہوجائے گی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ مذکورہ الفاظ ساس کے آپ کے پاس آنے کی صورت میں اس رشتے کو ختم کرنے کے ارادے کے اظہار پر دلالت کرتے ہیں، فی الحال رشتہ ختم کرنے کی کوئی بات نہیں کی،اس لیے ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

حوالہ جات
"البحر الرائق" (3/ 271):
"وليس منه أطلقك بصيغة المضارع إلا إذا غلب استعماله في الحال كما في فتح القدير".
وفی منحة الخالق:" (قوله: إلا إذا غلب استعماله في الحال) قال الرملي: يستفاد منه الوقوع بقوله تكوني طالقا أو تكون طالقا إذ هو الغالب في كلام أهل بلادنا تأمل اهـ.
"الفتاوى الهندية "(1/ 384):
"في المحيط لو قال بالعربية أطلق لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقا".

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم بالصواب

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

04/محرم 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب