69929 | طلاق کے احکام | الفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان |
سوال
ایک شخص نے جھگڑے کےدوران اپنی بیوی سے کہا کہ" جا دفعہ ہوجا" اور دو دفعہ طلاق کے الفاظ کہےہیں،اور دفعہ ہوجاکہنےسے مقصد جھگڑے کو ختم کرنا تھا،میاں بیوی دونوں کےالفاظ ایک ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ ایسی صورت میں طلاق کاکیا حکم ہے؟ اور کتنی طلاقیں واقع ہوئیں ہیں ؟ کیا وہ دوبارہ میاں بیوی کی طرح رہ سکتےہیں یانہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
"جا دفعہ ہوجا" ان الفاظ سےچونکہ طلاق کی نیت نہیں تھی،اس لیےان الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔
جب شوہر نے بیوی سےجھگڑے کےدوران دو دفعہ لفظ طلاق کہا ہے تو اس سےدو طلاق رجعی واقع ہوگئی ہیں۔طلاق رجعی کاحکم یہ ہے کہ عدت کےدوران دوبارہ نکاح کیےبغیر شوہر رجوع کرکے اپنی بیوی کو زوجیت میں رکھ سکتاہے۔رجوع کاطریقہ یہ ہے کہ شوہربیوی کو زبان سے کہہ دے کہ میں نے رجوع کرلیا،تو رجوع ہوجائے گا اور اگر زبان سے کچھ نہ کہے مگر میاں بیوی والا تعلق قائم کرلے یاخواہش و رغبت سے ہاتھ لگالے تب بھی رجوع ہوجائےگا۔البتہ اگر عدت گزرچکی ہو توعورت شوہرکےنکاح سےآزاد ہے،اب رجوع نہیں کرسکتا۔البتہ طرفین باہمی رضامندی سےگواہوں کی موجودگی میں نئے مہر پردوبارہ نکاح کرناچاہیں توگنجائش ہے۔واضح رہے کہ اس کےبعد شوہرکوصرف ایک طلاق کا اختیار ہے۔
حوالہ جات
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (2/ 217)
وقسم يصلح جوابا وردا ولا يصلح سبا وشتيمة وهي خمسة ألفاظ اخرجي واذهبي اغربي قومي تقنعي ومرادفها ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية…….. وفي حالة الغضب لا يقع بكل لفظ يصلح للسب والرد وهو القسم الثاني والثالث؛ لأنه يحتمل الرد والشتم ولا ينافيه حالة الغضب ويقع بكل لفظ لا يصلح لهما بل يصلح للجواب فقط وهو القسم الأول لظاهر حاله….
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 248)
قيد بخطابها، لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح،۔۔۔۔ (قوله لتركه الإضافة) أي المعنوية فإنها الشرط والخطاب من الإضافة المعنوية، وكذا الإشارة نحو هذه طالق، وكذا نحو امرأتي طالق وزينب طالق. اهـ۔۔۔۔۔۔۔ والمفهوم من تعليل الشارح تبعا للبحر عدم الوقوع أصلا لفقد شرط الإضافة، مع أنه لو أراد طلاقها تكون الإضافة موجودة ويكون المعنى فإني حلفت بالطلاق منك أو بطلاقك، ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته.
الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (2/ 50)
(وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض) إنما شرط بقاؤها في العدة لأنها إذا انقضت زال الملك وحقوقه فلا تصح الرجعة بعد ذلك
الفتاوى الهندية (1/ 470)
وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.
ضیاءاللہ
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
14محرم الحرام 1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | ضیاء اللہ بن عبد المالک | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |