021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حیلہ اسقاط کاحکم
69918سنت کا بیان (بدعات اور رسومات کا بیان)متفرّق مسائل

سوال

حیلہ اسقاط کی تعریف کیاہے؟ کیا اس کا ثبوت قرآن وحدیث یا حضورﷺ یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سےملتی ہے یانہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مروجہ حیلہ اسقاط یہ ہے کہ نماز جنازہ کےبعد کچھ لوگ دائرہ بناتےہیں۔میت کے ورثاء ایک قرآن شریف اور اس کےساتھ کچھ نقد رقم باندھ کر دائرہ میں گھماتےہیں، امام مسجد جو دائرہ میں ہوتاہے وہ لیتاہےاورمخصوص الفاظ پڑھتےہیں۔ اور ایک دوسرے کی ملک کرتاہے۔تین دفعہ اس کو پھیراجاتاہے،اس کےبعد نصف امام کو اور نصف غرباء کو دیا جاتاہے،یہ حیلہ اسقاط ہے۔

مروجہ حیلہ ناجائز ہے۔البتہ جس حیلہ اسقاط کی بعض متاخرین فقہاء کرام ؒ نےضرورت کےبناء پرجواز کافتوی دیاہےوہ مروجہ حیلہ سے قطعا مختلف ہے وہ فقہاء کرامؒ  نے ایسے شخص کےلیےتجویز فرمایاتھا،جس کے کچھ نماز،روزے وغیرہ اتفاقارہ گئےہوں،قضا کرنے کاموقع نہیں ملا،اور موت کی وقت وصیت کی،لیکن اس کے ترکہ میں اتنامال نہیں، جس سےتمام فوت شدہ نماز ،روزہ ،وغیرہ کا فدیہ ادا کیاجاسکے، یامیت نے وصیت نہ کی ہو اور ولی بطور تبرع ایسا کرنا چاہے تو اس وقت حیلہ کی گنجائش ہے۔جس کاطریقہ یہ ہےکہ ولی میت کسی فقیر کو نقدی یا گندم کامالک بنائے وہ فقیر اپنی مرضی سے مالک کو وہ جنس واپس ہدیہ دےدے یاکسی تیسرے شخص کو دےدےاور وہ تیسرا شخص ولی میت کو ہدیہ کردے۔اگر فقیر یا تیسرا شخص واپس نہ کرناچاہے تو اس مجبور نہ کیا جاسکے،اسی طرح متعدد بار کیا جائےیہاں تک کہ میت کےزوزوں اور نمازوں کے بقدر ہوجائےتو امید ہے کہ اللہ تعالی قبول فرماکر اس بندے کےحق میں درگزر کامعاملہ فرمائیں۔

لیکن مروجہ حیلہ قطعا اس سے مختلف ہےاور  بہت سارے مفاسد پر مشتمل ہے۔جن میں سےچند مفاسد اجمالا درج ذیل ہیں۔

  1. مروجہ حیلہ میں وصیت اور عدم وصیت کااعتبار نہیں کیاجاتا۔
  2. مروجہ حیلہ میت کی غربت کی وجہ سے نہیں کیاجاتاکہ میت غریب تھا اور اس کےترکہ کاثلث مال فدیہ کےلیےکافی نہیں تھا،بلکہ امیر وغریب ہر شخص کےلیےکیاجاتاہے، چاہے میت کےذمہ قضا ہو یانہ ہو۔
  3. یہ حیلہ فدیہ کی مقدار پر نہیں دیاجاتا بلکہ امیر وغریب کے اعتبار سے دیا جاتاہے، کہ امیر کے مرنے پر رقم ذیادہ ورنہ کم ہوتی ہے۔
  4. حیلہ کےلیےبیٹھنےوالے فقیر اور صدقہ کے مستحق نہیں ہوتے بلکہ ہر ایک کو بیٹھنے کی اجازت ہوتی ہے۔
  5. بالفرض اگر بیٹھنےوالے سب فقیر اور صدقہ کےمستحق ہوں تو یہاں کسی کومالک نہیں بنایا جاتا، صرف عارضی     ملکیت ہوتی ہے۔
  6. بہت دفعہ اس کےلیےجونقد رقم رکھی جاتی ہے،وہ میت کے متروکہ مال میں سے ہوتی ہے،اور اس کے حقدار

 وارث موجود نہیں ہوتے یاموجود ہوتےہیں لیکن نابالغ ہوتےہیں،تو ان کےسرمایہ کو ان کی اجازت کےبغیر استعمال کرناحرام ہے،اور اگر نابالغ اجازت بھی دےدے،تو وہ شرعا معتبر نہیں ہے۔

                  ان وجوہ کےبناء پر مروجہ حیلہ کتب شرعیہ میں موجود حیلہ سے قطعامختلف اور ناجائز ہےاوراس سے اجتناب لازم ہے.

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 72)
ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله) ولو لم يترك مالا يستقرض وارثه نصف صاع مثلا ويدفعه لفقير ثم يدفعه الفقير للوارث ثم وثم حتى يتم.
قوله ولو لم يترك مالا إلخ) أي أصلا أو كان ما أوصى به لا يفي. زاد في الإمداد: أو لم يوص بشيء وأراد الولي التبرع إلخ وأشار بالتبرع إلى أن ذلك ليس بواجب على الولي ونص عليه في تبيين المحارم فقال: لا يجب على الولي فعل الدور وإن أوصى به الميت لأنها وصية بالتبرع، والواجب على الميت أن يوصي بما يفي بما عليه إن لم يضق الثلث عنه، فإن أوصى بأقل وأمر بالدور وترك بقية الثلث للورثة أو تبرع به لغيرهم فقد أثم بترك ما وجب عليه. اهـ.

 ضیاءاللہ

 دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

  14محرم الحرام1442ھ              

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ضیاء اللہ بن عبد المالک

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب