021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترکہ خاندان کےمتفر ق مسائل
69923میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہمارے والد صاحب حاجی یارمحمد ولد حاجی عبداللہ خان  تقریباً 23 ،24سال پہلے وفات پاگئے ہیں ۔ہم  کل چھ بھائی ہیں اور ہماری  چھ بہنیں ہیں ۔بھائیوں کے نام یہ ہیں :

(1)حاجی عبدالحمید(2)عبد المجیدمرحوم (3)ڈاکٹر محبت خان (4)محمود خان(5)محمد یوسف(6) نیاز محمد(غیر شادی شدہ) سب بھائی بالغ ہیں۔

ہماری  چھ بہنیں ہیں :

(1) سراج بی بی(2) جمیلہ بی بی (3)  فریدہ بی بی(4) ساجدہ بی بی(5) شاہ جہان بی بی(غیر شادی شدہ)

 (6)ولایت بی بی

ہم سب مشترکہ فیملی کی صورت میں رہ رہے تھے۔وراثتی جائیداد ہم سب بہن بھائیوں نےاپنی والدہ بخت بی بی کو دے دی ہے۔خاندان کا سربراہ عبد الحمید تھا، اس  لیے والدہ نے عبد الحمید کو جائیداد سنبھالنے کو دی تاکہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی گھر پر خرچ کی جائے۔والد صاحب کی زندگی میں ہمارے ایک بھائی عبد المجید وفات  پاگئے۔اس کے دولڑکے اور ایک لڑکی تھی، تینوں اس وقت نابالغ تھے۔والد کی وفات کے بعد بڑے بھائی عبد الحمید والد صاحب کی چھوڑی ہوئی جائیداد سنبھالتے رہے،اس کے بعد ہمارا خاندان تحصیل سنجاوی ضلع زیارت،بلوچستان سے کراچی شفٹ ہوگیا۔

یہاں پر ہم چاروں بھائیوں نے محنت مزدوری کرکے خاص کر ڈاکٹر محبت خان ،بھائی محمود،بھائی  محمد یوسف اور بھائی نیاز محمد ، میڈیکل اور ہارڈوئیر کاکام کر تےرہے ۔سب سے بڑا بھائی حاجی عبدالحمید KPT کا کاروبار کر رہا تھا ۔ ہم لوگوں نے ذاتی گھر  گلشن حدید میں لیا اور میڈیکل کلینک اور ایک ہارڈ ویئر کی دکان جو پہلے کرائے  پرتھی ذاتی خرید لی۔ چند سال بعد عبدالحمید کروڑوں روپے قرض دار ہو گیا ۔وجہ یہ بتائی کہ KPT میں نقصان ہوا ۔ ہم نے کہا  گاؤں سے بھی تو وراثتی جائیداد کے پیسے آرہےتھے وہ کہاں گئے ؟کہنے لگا سب نقصان ہوا ۔ خیر ہم سب بھائیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس دفعہ نقصان میں حصہ دار ہیں،آئندہ جو بھی آپ کام کرو گے ہمارے مشورہ  سےکرو گے۔ حاجی عبد الحمید بھائی نے امی کی موجودگی میں کہا کہ آئندہ جو بھی کام کروں گا  مشورہ سے کروں گا۔ہم سب نے  قرآن شریف پر ہاتھ رکھ کر یہ وعدہ کیا اور بعد میں گلشن حدید میں جو ذاتی گھر تھا اسے فروخت کیا اور میڈیکل اور کلینک والی جگہ جس میں محمود کی ہارڈ ویئر کی دکان تھی اسےبیچ کر قرضہ ادا کیا اور وہاں سے فقیرہ گوٹھ شفٹ ہوئے۔

 یہاں بڑے بھائی عبدالحمیدکو کاروبار سے منع کیا کہ آپ صرف گھر بیٹھیں اور بچوں کو سنبھالیں ۔ہم نے یہاں میڈیکل کلینک بنایا،اللہ پاک نے ہمیں روزی دی،ہم اس قابل ہوگئے کہ دوبارہ120 گزکا اپنا ذاتی گھر خرید لیا۔گھر کا خرچہ بھی ہم چاروں بھائی  کر رہے تھے۔ بڑے بھائی عبدالحمید نے پھر چپکے سے ادھار لینادینا شروع کر دیا جو ہم میں سے کسی بھائی کےبھی علم میں  نہ تھا ۔نہ ہم سے مشورہ کیا گیا۔ ہم لوگ پھر کروڑوں روپے کے مقروض  ہو گئے۔ بھائی سے پوچھا کیوں ایسا کیا؟کہنے لگا اس دفعہ غلطی ہوگئی ہے، خدا کے لیے مجھے معاف کردو ،مجھ پر احسان ہوگا۔یہ سب کچھ امی کے سامنے ہوا ۔خیرا می جان نے ہمیں بولا کہ معاف کردو ، انسان سے غلطی ہو جاتی ہے ۔ ہم سب بھائیوں نے اسے معاف کیا اور وراثتی جائیدادگروی رکھ کر اس کا قرض ادا کیا  اور اس کے بعد قرآن شریف پر ہم سب نے ہاتھ رکھا کہ آئندہ قرضہ نہیں لیں  گے۔یہ سارے حالات دیکھ کر ڈاکٹر محبت نےکنارہ کشی اختیار کی ۔ وہ کہنے لگا کہ بھائی عبد الحمید ہمیں برباد کرے گا،اتنے سال محنت کی آخر میں سب کچھ نیلام ہوگیا۔وہ گاؤں شفٹ ہوگیااور کہا کہ  میں اپنی سرکاری نوکری کی تنخواہ پر گزارہ کر وں گا۔ وراثتی جائیداد کا جو میرا حصہ ہے وہ جب حساب ہوگا  ،لے لوں گا۔ چند سال گزرے ،ہم  بھائی محنت مزدوری کر رہے تھے اور عبدالحمید گاؤںوالی وراثتی زمین سنبھال رہا تھا، گھر میں لوگ  آنا شروع ہوئے ۔انہوں نے بتایا کہ عبدالمجید ہمارا مقروض ہے۔کسی نے  دس لاکھ بتایا، کوئی پچیس لاکھ کہہ رہا تھا وغیرہ،لگ بھگ ایک کروڑ سے زیادہ قرضہ تھا ۔ہم نے عبدالحمید بھائی کو فون کر کے پوچھا یہ پھر سے کیا معاملہ ہے ؟تو اس کا جواب ہوتا  کہ یہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں۔ہم لوگوں نے بھائی  کو گھر بلا یا ۔  وہ بڑی مشکل سے آٹھ نو  مہینے بعد آیا اور یہاں قرضخواہ ہمیں گالیاں دیتے رہے۔ اب  ہم  اپنے معا ملے کا شریعت کی روشنی میں جواب چاہتے ہیں اور وراثتی  جائیداد کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ والدہ صاحب کی بھی خواہش ہے وراثتی جائیداد سب میں تقسیم ہو۔اب پوچھنا یہ ہے کہ:

 1-ہمارے  بھائی عبدالمجید جن کا 25 سال پہلے والدصاحب کی زندگی میں انتقال ہوا تھا۔اس کے  دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے ۔عبدالمجید کے انتقال کے وقت اس کے بیٹےاور بیٹی سب نابالغ تھے ۔اس کے ایک سال بعد ہمارے والد بھی انتقال کر گئے ۔اب کیا شرعاً عبدالمجید کے بیٹوں کا بھی وراثتی جائیداد  میں حصہ بنتا ہے یا نہیں ؟

2-ہم پانچ بھائیوں نے  آپس میں تین بار امی کے سامنے قرآن شریف پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ قرض نہیں لیں گے اور نہ سود لیں گے۔ اس کے باوجود عبدالحمید بھائی نے تین بارقرض  لیا، جو ہم لوگوں نے گھر بیچ کر کے ساتھ ادا کیا ،ابھی اس دفعہ ہم لوگ ادا نہیں کر رہے، کیا شرعی طریقے سے ہم اس کا قرضہ ادا کرنے کے پابند ہیں یا نہیں ؟ اس نے ہم لوگوں سے مشورہ نہیں کیا اور نہ ہی  اس نے بتایا ہے کہ فلاں  کام کے لیے  قرض لےرہا ہوں ا ورنہ ہمیں علم ہے کہ عبدالحمید نے قرض کب لیا اور کس کام کے لے لیا ؟کسی بھائی کو کوئی علم نہیں ہے ۔ قرض لینے کی وجہ یہ  بتارہا ہے کہ گھر پر خرچ ہوئے جو کہ غلط کہہ رہا ہے۔

3- جو ایک گھر وراثتی  نہیں ہے بلکہ ہم نے محنت مزدوری کرکے لیا تھا اس میں بہنوں کا حصہ بھی ہے یا نہیں؟

4-جس گھر میں ہم رہتے ہیں اس میں ڈاکٹر محبت  کا بھی حصہ ہے یا نہیں ،ڈاکٹر محبت تو گاؤں شفٹ ہوگیا تھا ۔اس نے گھر خریدنےکے لیے ایک روپیہ بھی نہیں دیا۔اپنی تنخواہ لے رہاتھا اور اپنے گھر پر خرچ کررہا تھا۔

 5-کیا ہم سب بھائی ڈاکٹر محبت کی  پنشن میں حصہ دار ہیں یا نہیں کیونکہ ابھی تک پوری جائیداد تقسیم نہیں ہوئی ہے ؟

6-وراثتی جائیداد میں سے کچھ حصے پہلے بھی ہم لوگوں نے عبدالحمیدکے  قرضے ادا کرنے  کے لیے فروخت کیے تھے،ان کا کیا حکم ہے؟

7-وراثتی جائیدادشرعی طریقے سے کیسے تقسیم ہوگی ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرآپ  کی بیان کردہ تفصیل مکمل اور واقعے کے مطابق ہےتوآپ کے سوالات کےترتیب وار جوابات درج ذیل  ہیں :

  1. آپ کےوالد صاحب کی زندگی میں وفات پانے والے بھائی عبد المجید کی اولاد کا آپ کے والد صاحب کے ترکے میں حصہ نہیں کیونکہ میت کی زندگی میں وفات پاجانے والے  بیٹے کووالدکے ترکے سے حصہ نہیں ملتا ۔نیزاولاد کی موجودگی میں  شرعاً پوتے وارث نہیں بنتے۔البتہ سب ورثہ اپنی رضامندی سےیتیم بھتیجوں ،بھتیجی اور بیوہ کو کچھ دے دیں تو یہ حسن سلوک اورباعثِ اجر ہوگا۔
  2. شریعت کی روسےعبد الحمید کے قرضے ادا کرنا اس کے ذمے ہے اس کےبہن بھائی اسے ادا کرنے کے کے پابند نہیں ہیں ۔
  3. جو گھر بعد میں خریدا گیا اس میں ان بھائیوں کا حصہ ہے جنہوں نے اس کے خریدنے میں حصہ لیا ،  بہنوں کا یا ڈاکٹر محبت خان ، جو سوال  میں ذکرکردہ تفصیل کے مطابق الگ ہوکر گاؤں چلاگیاتھا اس کا اس میں حصہ نہیں ہے۔
  4. وفات پاجانے والے بھائی عبد المجید  کے بیٹوں کا وراثتی جائیداد میں تو حصہ نہیں البتہ گھر خریدنے میں اگر وہ بھی شریک تھے تو ان کا حصہ ہے اور اگر وہ شریک نہیں تھے تو ان کا حصہ نہیں ہے۔
  5. ڈاکٹر محبت خان کی پینشن اس کا حق ہے دوسرے بہن بھائی  اس میں حصہ دار نہیں ہیں ۔
  6. جس وراثتی جائیداد کو بیچ کر قرضہ اتارا گیا تھا،بھائیوں پر اس کا بیچنا اورقرض اتارنا لازم نہیں تھا،یہ ان کا تبرع اور احسان تھا لہذااگرسب نے رضامندی سے ایسے کیا تھا تو اب بقیہ جائیدادشرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی اور اگر سب راضی نہیں تھے تو اس میں جو بہن بھائی راضی نہیں تھے ان کاحصہ بیچنا درست نہ تھا۔اس لیے ان بھائی بہنوں کا حصہ ان بھائیوں کے ذمہ ہے جنہوں نے مل کرعبد الحمید کا قرضہ اتارنے کا ذمہ لیا تھااور اس کے لیے زمین بیچی تھی۔
  7. وراثتی جائیداد کی تقسیم کی تفصیل یہ ہے کہ آپ کے والد صاحب نےاپنے انتقال کے وقت جوجائیداد،نقد رقم، سونا، چاندی، دیگرجائیداد، مکانات، کاروبار غرض جو کچھ چھوٹا بڑا ساز و سامان چھوڑا ہے، یا اگر کسی کے ذمہ ان کا قرض تھا، تو وہ سب اس کا ترکہ ہے، اس میں سے سب سے پہلے ان کی تجہیز و تکفین کے متوسط اخراجات نکالے جائیں گے، بشرطیکہ یہ اخراجات کسی نے بطورِ احسان ادا نہ کیے ہوں۔ اس کے بعد دیکھا جائے گا، اگر ان کے ذمے کسی کا قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے گا۔ اس کے بعد اگر انہوں نے کسی غیر وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی ترکہ کی حد تک اس کو پورا کیا جائے گا۔ اس کے بعد جو کچھ بچے،  اسےایک سو اٹھائیس حصوں(128) میں تقسیم کرکے آپ کی  والدہ صاحبہ کو سولہ(16)حصے اورہر ہر بھائی کو چودہ چودہ (14)حصے، اور ہر ہربہن  کو  سات سات (7)  حصے دیےجائیں گے۔فیصدی اعتبارسےآپ کی والدہ صاحبہ کو%12.5ہر ہر بھائی کو %10.94اور ہرہربہن کو%5.47 دیا جائے گا۔

حصوں کا تفصیلی نقشہ ملاحظہ فرمائیں :

مسئلہ:8تص128

میتــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 

بیوہ

عبدالحمید

محبت خان

محمود خان

محمد یوسف

نیاز محمد

ولایت

بی بی

سراج

بی بی

جمیلہ

بی بی

فریدہ

بی بی

شاہجہان

بی بی

ساجدہ

بی بی

16

14

14

14

14

14

7

7

7

7

7

7

%12.5

%10.94

%10.94

%10.94

%10.94

%10.94

%47. 5

%47. 5

%47. 5

%47. 5

%47. 5

%47. 5

حوالہ جات
القرآن الکریم(النساء: 11)
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ  لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ  ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا}
السراجیة فی المیراث (ص:2،3)
قال علماؤنا رحمهم الله  تعالی: تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبة: ألأول يبدأ بتكفينه وتجهيزه من غیر تبذیر ولاتقتیر، ثم تقضی دیونه  من جمیع ما بقی من ماله،  ثم تنفذ وصایاه من ثلث ما بقی بعد الدین، ثم یقسم الباقی بین ورثته بالکتاب والسنة وإجماع الأمة.
رد المحتار(6  /  758)
والمراد بالفرائض السهام المقدرة كما مر فيدخل فيه العصبات ، وذو الرحم لأن سهامهم مقدرة وإن كانت بتقدير غير صريح ، وموضوعه : التركات ، وغايته : إيصال الحقوق لأربابها ، وأركانه : ثلاثة وارث ومورث وموروث . وشروطه : ثلاثة:  موت مورث حقيقة ، أو حكما كمفقود ، أو تقديرا كجنين فيه  غرةووجود وارثه     عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل .
رد المحتار (4 / 499):
يقع كثيرا في الفلاحين ونحوهم أن أحدهم يموت، فتقوم أولاده على تركته بلا قسمة، ويعملون فيها من حرث وزراعة وبيع وشراء واستدانة ونحو ذلك، وتارة يكون كبيرهم هو الذي يتولى، مهماتهم ويعملون عنده بأمره، وكل ذلك على وجه الاطلاق والتفويض، لكن بلا تصريح بلفظ المفاوضة ولا بيان جميع مقتضياتها مع كون التركة أغلبها أو كلها عروض لا تصح فيها شركة العقد، ولا شك أن هذه ليست شركة مفاوضة، خلافا لما أفتى به في زماننا من لا خبرة له، بل هي شركة ملك كما حررته في تنقيح الحامدية.
ثم رأيت التصريح به بعينه في فتاوى الحانوتي، فإذا كان سعيهم واحدا ولم يتميز ما حصله كل واحد منهم بعمله، يكون ما جمعوه مشتركا بينهم بالسوية، وإن اختلفوا في العمل والرأي كثرة وصوابا، كما أفتى به في الخيرية، وما اشتراه أحدهم لنفسه يكون له ويضمن حصة شركائه من ثمنه إذا دفعه من المال المشترك، وكل ما استدانه أحدهم يطالب به وحده. وقد سئل في الخيرية من كتاب الدعوى عن إخوة أشقاء عائلتهم وكسبهم واحد وكل مفوض لاخيه جميع التصرفات ادعى أحدهم أنه اشترى بستانا لنفسه.فأجاب: إذا قامت البينة على أنه من شركة المفاوضة تقبل وإن كتب في صك التبايع أنه اشترى لنفسه اھ.ملخصا

سیف اللہ تونسوی

 دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

14/ محرم الحرام1442ھ 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سیف اللہ تونسوی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب