021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اشیاء خوردونوش کا ریٹ مقرر کرنے کا حکم
69916خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

 تسعیر)نرخ مقرر کرنے( سے متعلق کچھ سوالات ہیں!

1۔ اشیاء خورد و نوش کا ریٹ مقرر کرنا کیسا ہے؟

2۔کیا شریعت نے اشیاء ضروریہ  میں منافع کی تحدید کی ہے  یا گورنمنٹ کو تحدید کی اجازت  دی ہے؟ دی ہے تو کیا خیر القرون میں اس کی کوئی مثال ہے؟ اگر تحدید کی اجازت دی ہے تو کس حد تک؟

                             جب کہ صورت واقعہ  یہ ہے کہ  پرائس کنٹرول کمیٹی  تو دو فیصد نفع کی بھی اجازت نہیں دیتی،تو کیا اس طرح کی قانون سازی کرنا جائز ہے؟

                             نیز کیا صرف  ذخیرہ اندوزی کرکے  رسد میں مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کے خلاف کریک  ڈاؤن کرنے سے پرائس کنٹرول  مجسٹریٹ کی ذمہ داری  پوری ہوجاتی ہے؟ یا ریٹیلر کے نفع  کی حد بندی بھی ضروری ہے؟ مثلا آج کل حکومت ہمیں یہ کہتی ہے کہ چینی ۷۰ روپے پر فرخت کی جائے، جب کہ  مل مالکان نے اتحاد قائم کیا ہوا ہے اور بڑے بڑے ذخائرذخیرہ کیے ہوئے ہیں تو ہمیں تو وہ چینی خود ۸۸ روپے میں مل رہی ہے تو ہم ۷۰ پر کیسے بیچ سکتے ہیں؟ 

3۔اگر ریٹیلر کا نفع دو فیصد سے بھی کم مقرر کیا گیا ہو  یا برابر  سرابر میں بیچنے کو ہی لازم قرار دیا گیا ہو، تو  اگر دوکاندار دو یا تین فیصد نفع  پر بیچے تو  مخالفت اولی الامر  کا گناہ ہوگا یا مقننہ غلط قانون سازی  کی وجہ سے گنہگار  ہوگی؟ اوور چارجز کی صورت میں  مالی جرمانہ  کا کیا حکم ہے؟ 

                             یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ فیصد نفع میں صرف  براہ راست  اخراجات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے مثلا: اس پروڈکٹ کو بازار سے لانے کے اخراجات وغیرہ  ،جبکہ جو اخراجات براہ راست نہیں ہوتے مثلا:ملازمین کی تنخواہیں،بجلی کے بل اور بلڈنگ کا کرایہ وغیرہ ۔ تو ایسی صورت میں صرف  دو فیصد نفع کی تحدید کی صورت میں تو بسا اوقات نقصان اٹھانا پڑتا ہے،ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟

                             ان تمام سوالوں کے جوابات قرآن و سنت ،اقوال صحابہ  اور فقہ حنفی کی روشنی میں حوالہ جات کے ساتھ مطلوب ہیں!!  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ سوالات کے جوابات سے پہلے چند تمہیدی باتوں کا سمجھنا ضروری ہے جو  درج ذیل ہیں:

          شریعت کا منشا  یہ ہے کہ تجارت کو آزاد رکھا جائے ،اس پر پابندی عائد نہ کی جائے  تاکہ طلب اور رسد کی بنیاد پر فطرتی طور پر ایک آزاد مارکیٹ وجود میں آئے، چنانچہ اسی لیے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے قیمتوں کے بڑھنے کی شکایت کی گئی اور صحابہ نے عرض کیا کہ آپ تسعیر فرمادیجیے ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے انکار فرمایا ،اور  فرمایا:"قیمتوں کا چڑھنا اور گرنا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور میں یہ چاہتا ہوں کہ میں جب اللہ تعالی سے ملوں تو اس حال میں  ملوں کہ کوئی شخص میرے خلاف ظلم اور نا انصافی کی شکایت کرنے والا نہ ہو"۔

          اس بات کی تائید کہ اسلام مارکیٹ کو آزاد رکھنے کی ہدایت کرتا ہے،اس سے ہوتی ہے  کہ ذخیرہ اندوزی وغیرہ جن چیزوں سے بازار کا ریٹ متاثر ہوتا ہے،اسلام نے اس سے سختی کے ساتھ منع کردیا ہے۔چنانچہ اس بارہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کے بہت سے ارشادات موجود ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذخیرہ اندوزی پر لعنت اور دیگر سخت وعیدوں کا ذکر فرمایا۔مثلا آپ ﷺ نے فرمایا:

          1۔" الجالب مرزوق والمحتکر ملعون."(سنن ابن ماجۃ:2153) ضروریات زندگی کو بازار میں لانے والا  اللہ تعالی سے رزق اور رحمت پاتا ہے اور ان کو روک  کر رکھنے والا  اللہ تعالی کی لعنت کا مستحق ہوتا ہے۔

          2۔اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا کہ: "من جمع  طعاماً اربعین یوماً یتربص بہ فقد برئ من اللہ،برئ اللہ منہ."(المعجم الاوسط:8426)  جس نے چالیس روز تک(ضرورت کے وقت میں ) غلہ جمع  رکھا تاکہ اس کی قیمتیں بڑھ جائیں تو اللہ تعالی اس سے اور یہ اللہ تعالی سے بری ہے۔

          3۔اسی طرح یہ بھی فرمایا کہ :" بئس العبد المحتكر إذا رخص الله الأسعار حزن، وإذا غلى فرح ."

( شعب الإيمان :10702)کتنا برا ہے وہ شخص جو اشیاء ضروریہ کو روک رکھتا ہے، جب اللہ تعالی ارزانی فرماتے ہیں تو اس کا دل دکھتا ہے ،گرانی فرماتے ہیں تو اس کا دل خوش ہوجاتا ہے۔

          ذخیرہ اندوزی  کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف ارشادات کے ذریعہ سے مارکیٹ میں ہونے والی دیگر کئی خرابیوں کی بھی  اصلاح فرمائی ہے ،لیکن  بایں ھمہ تسعیر نہیں فرمائی۔  

اس تمھید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:

          1۔عام حالات میں تو  حکومت وقت کے لیے اشیاء خورد و نوش کے نرخ مقرر کرنا درست نہیں،اس لیے کہ ہر شخص اپنی اشیاء کا مالک ہوتا ہے وہ جس نرخ پر بھی چاہے بیچے لیکن اگر کبھی ایسے حالات ہوجائیں کہ خاص مجبوری کی شکل میں جب کہ تجار حد سے تجاوز کرنے لگیں ،اور حاکم  تسعیر کے بغیر اپنے شہریوں کے حقوق کے تحفظ سے عاجز ہوجائے تو اہلِ رائے اور اہلِ بصیرت لوگوں کے مشورے سے تسعیر کی گنجائش ہے  تاکہ عامۃ الناس سے دفع مضرت ہوسکے ۔

          2۔ شریعتِ مطہرہ نے منافع کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے، بلکہ اس کو بازار کے اتار چڑھاؤ پر چھوڑدیا ؛البتہ جھوٹ دھوکہ دہی سے بچنے کی ترغیب دی ہے ؛لہذا عاقدین اگر جھوٹ ودھوکہ دہی سے بچتے ہوئے باہمی رضامندی سے کسی بھی قیمت پر معاملہ کرلیں تو اس کی گنجائش ہوگی ؛البتہ اس قدر نفع لینے کو فقہاء نے نامناسب اور خلافِ مروت کہا ہے جو غبنِ فاحش کے دائرے میں آتا ہو اور غبن فاحش یہ ہے کہ بازار میں جو زائد سے زائد قیمت چل رہی ہو، اس سے زائد نفع لیا جائے، اسی کو فقہاء نے ”مالایدخل تحت تقویم المقومین“سے تعبیر کیا ہے ،یعنی ایک چیز کی قیمت کا اندازہ کئی لوگ لگائیں اور کسی کا تخمینہ اس حد تک نہ پہنچے۔ البتہ اخلاقی طور پر یہ ہے کہ منافع ایک مناسب مقدار میں لیے جائیں تاکہ خریدار کو بھی سہولت ہو اور بیچنے والے کو بھی نفع ہو۔نیز حکومت کے لیے تحدید کی تب گنجائش ہوگی جب  جواب نمبر ایک میں درج اصول کہ تحت حالات ہوں یعنی تجار حد سے تجاوز کرنے لگیں اور بغیر تسعیر کیے عوام کے حقوق کا تحفظ نہ ہوسکتا ہو،تو ایسی صورت میں حاکم کے لیے  عدل کے ساتھ فریقین کا خیال کرتے ہوئے تسعیر کی بھی گنجائش ہے۔

          نیز خیر القرون کا زمانہ تو تھا ہی دیانتداری اور خیر خواہی کا ،تو اس زمانہ میں تو تسعیر کی کوئی  مثال نہیں ملتی اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس معاشرے کی اصلاح اپنے مبارک ارشادات سے فرمائی  اور آپ صلی اللہ ولیہ وسلم کے ارشادات کے خلاف کرنا ان لوگوں کو گوارا نہ تھا۔

          اگر حاکم وقت  ضرورت کے تحت منافع کی تحدید کرتا ہے تو اس کےلیے ضروری ہے کہ وہ جانبین کا خیال رکھے ،دوکانداروں کے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ اخراجات کا خیال کرتے ہوئے اہل رائے اور دیانتدار لوگوں سے مشورہ کرکے اعتدال کے ساتھ تحدید کرے اور تحدید  کرنے میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ریٹیلر کو وہ اشیاءہول سیل ریٹ پر  تحدید کے مارجن سے میسر بھی ہوں ۔صورت سوال میں جو  مذکور ہے کہ  جن اشیاء کی تحدید کی گئی ہے  خود دوکانداروں کو اس ریٹ میں  میسر نہیں تو ایسی صورت میں مجسٹریٹ کا مالی جرمانے کرنا جائز نہیں ہوگا ،بلکہ حاکم کو چاہیے کہ بڑے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے مطلوبہ ریٹ پر ریٹیلر کو ان اشیاء کی فراہمی یقینی بنائے اور پھر  اگر کوئی دوکاندار حد سے تجاوز کرتا ہے تو تحدید پر عمل کروایا جائے۔لہذا مجسٹریٹ کی اولین ذمہ داری ریٹیلر کو ان اشیاء کی مارکیٹ ریٹ پر فراہمی یقینی بنانا ہے اور اس کے بعد پھر اگر کوئی  تاجر ناجائز منافع کماتا ہے تو اس پر کاروائی کرنا ہے۔ خلاصہ یہ کہ عام حالات میں اصل حکم تو تحدید نہ کرنے کا ہے لیکن اگر لوگوں کو بعض تجار یا مل مالکان کی طرف سے ضرر پہنچتا ہو تو حاکم یا مجسٹریٹ  کی اصل ذمہ داری ان لوگوں کے خلاف کاروائی کرنا ہے جس میں قیمت کی تحدید بھی شامل ہے۔

     3۔ اگر حاکم مندرجہ بالا تمام امور کی رعایت کرتے ہوئے  تحدید کرے تو دوکانداروں کے لیے اس سے زیادہ نرخ پر بیچنا درست نہیں،  اولی الامر کی حکم عدولی کا گناہ ہوگا، لیکن اگر وہ تحدید ایسی ہے کہ جس سے دوکانداروں کو نفع کی بجائے نقصان ہوتا ہو یا نفع کچھ بھی حاصل نہ ہوتا ہو تو حاکم ایسی تحدید کی وجہ سے،گناہ گار ہوگا اور  دوکاندار کے لیے یہ جائزہے کہ وہ مالی نقصان سے بچنے کے لیے  مارکیٹ ریٹ کے اعتبار سے مناسب نفع پر وہ چیز فروخت کردے  اس لیے کہ یہ دفع مضرت ہے ۔البتہ اگر تحدید میں نقصان تو نہ ہوتا ہو لیکن نفع کم ہوتا ہو تو ایسی صورت میں چونکہ یہ جلب منفعت ہے  لہٰذا اس کی اجازت نہیں ہوگی، لیکن اگر دوکاندار اس سے زیادہ نرخ پر بیع کریں تو  حاصل ہونے والے نفع   کو حرام نہیں کہا جائے گا۔نیز مہنگائی اور عوام کے ضرر میں  اصل عوامل ذخیرہ اندوزی یا بڑے تجار کی اجارہ داری ہوں  تو اس صورت میں مجسٹریٹ کے لیے ریٹیلر دوکانداروں کو مالی جرمانہ کرنا جائزنہ ہوگا لہٰذا اگر تجار یہ  جرمانہ   ادا کرنے پر مجبور ہوں تو وہ ایک ہو کر مناسب طریقے سے متعلقہ حکام تک اپنی بات پہنچائیں اور قانونی راستہ اختیار کریں۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الزيلعي رحمہ اللہ:قال رحمه الله :(ولا يسعر السلطان إلا أن يتعدى أرباب الطعام عن القيمة تعديا فاحشا)؛ لقوله  عليه الصلاة والسلام :"لا تسعروا فإن الله هو المسعر القابض الباسط الرازق"؛ ولأن الثمن حق البائع فكان إليه تقديره فلا ينبغي للإمام أن يتعرض لحقه إلا إذا كان أرباب الطعام يتحكمون على المسلمين، ويتعدون تعديا فاحشا، وعجز السلطان عن صيانة حقوق المسلمين إلا بالتسعير فلا بأس به بمشورة أهل الرأي والنظر ،فإذا فعل ذلك على رجل فتعدى عن ذلك فباعه بثمن فوقه أجازه القاضي، وهذا لا يشكل عند أبي حنيفة؛ لأنه لا يرى الحجر على الحر، وكذا عندهما إلا أن يكون الحجر على قوم بأعيانهم؛ لأنه إذا لم يكن على قوم بعينهم لا يكون حجرا بل يكون فتوى في ذلك،وينبغي للقاضي أو السلطان أن لا يعجل بعقوبته إذا رفع إليه هذا الأمر، ولا بالتسعير يأمره بأن يبيع ما فضل عن قوته، وقوت أهله على اعتبار السعة، وينهاه عن الاحتكار، ويعظه، ويزجره عنه فإذا رفع إليه ثانيا فعل به كذلك وهدده، وإن رفع إليه ثالثا حبسه، وعزره حتى يمتنع عنه، ويزول الضرر عن الناس، ولا يسعر إلا إذا أبوا أن يبيعوه إلا بغبن فاحش ضعف القيمة، وعجز عن صيانة حقوقهم إلا به فلا بأس به بمشورة أهل الرأي على ما بينا، وإن امتنع من البيع بالكلية. قيل لا يبيع عند أبي حنيفة
رحمه الله . (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي :6/ 28)                                                                                         
                                                قال  العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ:وأماحكم الاحتكار فنقول يتعلق بالاحتكار أحكام (منها) . . .وكذا لا يسعر لقوله عز وجل: {يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم} [النساء: 29] وقوله عليه الصلاة والسلام :"لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب من نفسه"وروي  أن السعر علا في المدينة وطلبوا التسعير من رسول الله  صلى الله عليه وسلم ،فلم يسعر وقال: "إن الله تبارك وتعالى هو المسعر القابض الباسط" .
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                    (      بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع :5/ 129)
قال العلامۃ عبد اللہ بن محمود الموصلی رحمہ اللہ: قال محمد: أجبر المحتكرين على بيع ما احتكروا ولا أسعر، ويقال له: بع كما يبيع الناس وبزيادة يتغابن في مثلها ولا أتركه يبيع بأكثر.والأصل في ذلك ما روى: أن السعر غلا بالمدينة فقالوا: يا رسول الله لو سعرت؟ فقال: "إن الله هو المسعر" ؛ ولأن التسعير تقدير الثمن وإنه نوع حجر. وقول محمد: " أجبرهم على البيع " يحتمل وجهين: إما لما فيه من المصلحة العامة أو بناء على قولهما في الحجر.قال: (ولا ينبغي للسلطان أن يسعر على الناس) لما بينا.قال: (إلا أن يتعدى أرباب الطعام تعديا فاحشا في القيمة فلا بأس بذلك بمشورة أهل الخبرة به) ؛لأن فيه صيانة حقوق المسلمين عن الضياع، وقد قال أصحابنا: إذا خاف الإمام على أهل مصر الضياع والهلاك أخذ الطعام من المحتكرين وفرقه عليهم فإذا وجدوا ردوا مثله، وليس هذا حجرا وإنما هو للضرورة كما في المخمصة. (الاختيار لتعليل المختار :4/ 161)
                                                قال العلامۃ الشامی  رحمہ اللہ:. وظاهره أنه لو باعه بأكثر يحل وينفذ البيع، ولا ينافي ذلك ما ذكره الزيلعي وغيره من أنه لو تعدى رجل وباع بأكثر أجازه القاضي، لأن المراد أن القاضي يمضيه ولا يفسخه، ولذا قال القهستاني: جاز وأمضاه القاضي، خلافا لما فهمه أبو السعود من أنه لا ينفذ ما لم يجزه القاضي. (الدر المختارمع رد المحتار:6/ 400)
                        وقال ایضا:وذكر أن السرخسي قال: إن ما لا يدخل تحت تقويم المقومين، فاحش.
                                                                                                                                                                        (رد المحتارعلی الدر المختار:5/ 47)
                                                قال العلامۃ المفتی محمد تقی العثمانی مدظلہ :وأن المسلم یجب علیہ  أن یطیع أمیرہ فی الأمور المباحۃ . فان أمر الأمیر بفعل مباح،و جبت مباشرۃ ،و إن نہی عن امر مباح،حرم إرتکابہ؛لأن اللہ سبحانہ و تعالی قال:( أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُم) . . . .  ولکن ھذہ الطاعۃ کما أنھا مشروطۃ بکون أمر الحاکم غیر معصیۃ،فانھا مشروطۃ أیضا بکون الأمر صادرا    عن مصلحۃ لا عن ھوی أو ظلم،لأن الحاکم لا یطاع لذاتہ،و إنما یطاع من حیث أنہ متول لمصالح العامۃ،فان أمر بشیئ اتباعا لھوی نفسہ دون نظر الی مصالح المسلمین،فانہ أمر صدر من ذاتہ و شخصہ ،لا من حیث کونہ حاکما،فلا یقع بمثابۃ أوأمرہ من حیث کونہ حاکما۔ولذالک قال الفقھاء:"تصرف الامام علی الرعیۃ منوط بالمصلحۃ".          (تکملۃ فتح الملھم:3/323)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عثمان یوسف

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب