021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فوتگی کے موقع پر کھانے وغیرہ کے انتظامات کے لیے بنائے جانے والی کمیٹی کا حکم
70026جنازے کےمسائلتعزیت کے احکام

سوال

ہمارے رشتہ داروں نے فوتگی کے موقع پر کھانے وغیرہ کے انتظامات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے،جس کے اصول و ضوابط درج ذیل ہیں:

 1۔ہر شادی شدہ مرد کے ذمے ہر مہینے سو روپے چندہ دینا لازم ہوگا۔

2۔ہر ممبر خزانچی کے پاس اپنا چندہ وقت مقررہ پر خود لاکر جمع کرائے گا۔

3۔چار ماہ سے زیادہ تک چندہ نہ جمع کرانے والا ممبر کمیٹی سے خارج شمار ہوگا اور پانچ ماہ پورے ہونے کے باوجود بقایاجات جمع نہ کرانے والے شخص کے ہاں اگر میت ہوئی تو کمیٹی اس کے لیے کھانے وغیرہ کے انتظام کی ذمہ دار نہ ہوگی،البتہ بقایاجات جمع کرانے کے بعد وہ کمیٹی کا ممبر بن سکے گا۔

4۔میت کی کوئی حد متعین نہیں،کوئی شخص کسی بھی رشتہ دار کے فوت ہونے پر تعزیت کے لیے بیٹھ جائے تو کمیٹی اس کے لیے انتظامات کرے گی۔

5۔خواتین کی میت ہونے کی صورت میں اس گھر کے اصل وارث کو دیکھیں گے،اگر وہ ممبر ہوا اور چندہ بھی کلیئر ہوا تو کمیٹی انتظام کرے گی اور اگر اس کے ذمے چار سو سے زیادہ بقایا جات ہو تو کمیٹی ذمہ دار نہ ہوگی،مثال کے طور پر اگر ایک گھر میں باپ بیٹا رہتا ہے،باپ چندہ دیتا ہے،لیکن بیٹا نہیں دیتا تو اگر بیٹے کی بیوی،بچے یا سسرال والوں میں سے کوئی فوت ہوجائے تو کمیٹی انتظام کی ذمہ دار نہ ہوگی،جبکہ باپ کی بیوی،بچے یا کسی رشتہ دار کی فوتگی پر کمیٹی انتظام کرے گی۔

6۔فوتگی کے موقع پر کھانے کا انتظام تو کمیٹی کرے گی،لیکن چائے اور ناشتے کا انتظام کمیٹی کی انتظامیہ ممبران میں سے نمبر وار ہر ایک کے ذمے لگائے گی اور اس کے اخراجات کمیٹی ادا کرے گی۔

7۔جو ممبر فیملی سمیت گاؤں چلا جائے تو واپسی تک اس سے چندہ نہیں لیا جائے گا اور اس دوران اگر اس کے ہاں فوتگی ہوجائے تو کمیٹی انتظامات کی ذمہ دار بھی نہیں ہوگی۔

8۔جو ممبر فیملی یہاں چھوڑ کر اکیلا گاؤں یا کسی اور جگہ سفر پر جائے تو اس کے ذمے واپسی تک چندہ برابر جمع کرانا ہوگا،کیونکہ اگر اس دوران اس ممبر کے گھر میں کوئی تعزیت ہوگی تو کمیٹی کھانے وغیرہ کا بندوبست کرے گی۔

اب آپ حضرات سے راہنمائی کی درخواست ہے کہ آیا شرعا اس طرح کمیٹی تشکیل دینا جائز ہے یا نہیں؟ اگر مذکورہ طریقہ کار کے مطابق جائز نہیں تو اس کے متبادل اگر جواز کی کوئی صورت ہو تو بتادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت کے لحاظ سے فوتگی کے موقع پر اہلِ میت کے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اہل میت کے لیے کھانے وغیرہ کا انتظام کریں،لیکن چونکہ آج کل لوگ اس میں غفلت برتتے ہیں،اس لیے لوگوں کو سہولت کے لیے اس کا باقاعدہ نظم بنانا پڑتا ہے،تاکہ ایسے موقع پر پریشانی سے بچا جاسکے،لہذا اس مقصد کے لیے کمیٹی بنانے کی گنجائش ہے،تاہم اس مقصد کے لیے بنائی جانے والی کمیٹیوں میں عام طور پر  درج ذیل قباحتیں پائی جاتی ہیں:

  1. امیر و غریب کا لحاظ کیے بغیر تمام چندہ دہندگان سے برابر چندہ لینا ، جس میں عموماً غرباء کی رضامندی شامل نہیں ہوتی۔
  2. فقہائے کرام رحمہم اللہ نے اہلِ میت کے رشتہ داروں اور پڑوسیو ں كےليے اہلِ میت  كو  عام حالات میں صرف ایک دن اور ایک رات  کاکھانا کھلانا مستحب قرار دیاہے، کیونکہ اس دن اہل میت تجہیز و تکفین میں مشغول ہوتے ہیں، بلاضرورت دوسرے اور تیسرے دن کھانے کا انتظام شریعت سے ثابت نہیں،البتہ اگر رشتہ دار دوردراز سے آئے ہوں اور دوسرے یا تیسرے دن بھی ضرورت ہو تو بقدرِ ضرورت اس کی گنجائش ہوگی۔
  3. کمیٹی میں جمع شدہ رقم  کی  زکوۃ اداکرنے کا  کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا، حالانکہ سال گزرنے پر اس کی زکوۃ ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
  4. اگر چندہ دینے والوں میں سے کوئی فوت  ہو جائے تو اس کا حصہ اس کے ورثاء کو واپس  نہیں دیاجاتا۔

حالانکہ میت کمیٹی کی انتظامیہ دراصل چندہ دینے والے کی طرف سےفوتگی کے موقع پر رقم خرچ کرنے کی  وکیل ہوتی ہے اور وکیل جب تک رقم کو خرچ نہیں کرلیتا وہ چندہ دینے والے کی ملکیت میں رہتی ہے، اس لیے یہ رقم خرچ ہونے سے پہلے  شرعاً چندہ دینے والے کی ملکیت ہوتی ہے، لہذاسال گزرنے پر اگر مالک صاحبِ نصاب ہو تو اس کے ذمے اس رقم کی زکاة ادا کرنا لازم ہے،اسی طرح  اگر کمیٹی کا کوئی ممبر اپنی جمع کرائی گئی  رقم خرچ ہونے سےپہلے فوت ہو جائے تو اس کے حصہ کی رقم اس کی ملکیت میں ہونے کی وجہ سےاس کے ورثہ کو واپس کرنا ضروری ہوتا ہے۔

اس لیے مذکورہ بالا وجوہ کی بنا ء پر مروّجہ طریقے کے مطابق میت کمیٹی بنانا جائز نہیں،البتہ درج ذیل شرائط کی رعایت کے ساتھ کمیٹی بنانے کی گنجائش ہے:

  1. شروع میں چند لوگ مل کر کچھ رقم  جمع کرکےاپنی رضامندی سے ایک وقف قائم کریں، جس کی آخری جہت فقراء ومساکین ہوں، یعنی یہ طے کیا جائے کہ اگر کبھی یہ وقف ختم کرنا پڑا تو اس میں موجود رقم فقراء ومساکین پر خرچ کی جائے گی۔ ( يہ یاد رہے کہ جتنی رقم سے شروع میں وقف قائم کیا جائے گا اتنی رقم وقف میں باقی رکھنا ضروری ہو گا، اس کے علاوہ بطورفنڈ دی جانے والی رقم خرچ کی جاسکے گی)
  2.  اس وقف کی شرائط میں یہ بھی لکھا جائے کہ جو شخص اس وقف کو ماہانہ اتنا چندہ دےگا تو اس وقف کی پہلی ترجیح یہ ہوگی کہ اس کے گھر میں فوتگی کی صورت میں اس کے ساتھ حسبِ استطاعت تعاون کیا جائے گا، نیز یہ تعاون چندہ کی رقم کی کمی بیشی کے ساتھ مربوط نہیں ہو گا، بلکہ وقف کے منتظمین متاثرہ گھرانے کی مالی حیثیت اورمہمانوں کی تعداد وغیرہ کا لحاظ رکھتے ہوئے تعاون کی مقدار کا فیصلہ کریں گے۔
  3. چندہ  دہندگان  کو قانونی طور پر اور نقدی کی صورت میں اس تعاون کے مطالبے کا حق حاصل نہیں ہو گا۔
  4. وقف میں یہ شرط بھی رکھی جائے کہ وقتاً فوقتاً یہ وقف دیگر غرباء (جو اس وقف کو چندہ نہیں دیتے) کے افراد کے فوت ہونے پر بھی حسبِ استطاعت ایک معتد بہ اور خاطرخواہ مقدار میں خرچ كرے گا۔
  5. چندہ دینے پر کسی شخص کو مجبور نہ کیا جائے، بلکہ حسبِ صوابديد جو شخص  چاہے اس وقف کو چندہ دینے والوں میں شامل ہو،البتہ وقف کی مصلحت کے لیے چندے کی کم از کم حد مقرر کرکے صاحبِ استطاعت لوگوں کو اتنا چندہ دینے کی ترغیب دی جاسکتی ہے۔
  6. وقف كا ممبر بننے كے ليے حقيقی اخراجات کے علاوہ کسی قسم کی کوئی رقم وصول نہ کی جائے، نیز اگر کوئی ممبر غریب اور وہ وسعت نہ ہونے کی وجہ سے کبھی طے شدہ رقم سے کم دے تو اس کی بھی گنجائش رکھی جائے۔
  7. امیر اور غریب سب پر برابر رقم خرچ کی جائے، نیزعام حالات میں ایک دن سے زیادہ کھانے کا اہتمام نہ کیا جائے،البتہ اگر باہر کے مہمان زیادہ ہوں اور دور سے آئے ہوں تو ایک دن سے زیادہ بھی کھانے وغیرہ کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔

مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ وقف قائم ہونے کے بعد چندہ دینے والے افرادکے گھر میں فوتگی  ہونےپر وقف کی انتظامیہ کو وقف کے طے شدہ  اصول وضوابط کے مطابق  اہلِ میت کے ساتھ تعاون کرنے کی اجازت ہو گی،نیز ایسی صورت میں اس وقف میں جمع شدہ رقم  پر زکوۃ بھی لازم نہیں ہوگی اور ممبر شپ ختم کرنے والے یا فوت ہونے والےشخص کی جمع کی گئی رقم واپس کرنا بھی ضروری نہ ہو گا،کیونکہ ان کی دی گئی رقم ان کی ملکیت سے نکل کر وقف فنڈ کی ملکیت بن جائے گی۔

حوالہ جات
" سنن الترمذي "(2/ 314):
 عن عبدﷲبن جعفر قال: لما جاء نعي جعفر، قال النبي صلى ﷲ عليه وسلم: اصنعوا لأهل جعفر طعاما، فإنه قد جاءهم ما يشغلهم. هذا حديث حسن".
نقل  الملا علی القاری رحمہ  اللہ  فی شرحہ  المرقاة:" قال الطيبي: دل على أنه يستحب للأقارب والجيران تهيئة طعام لأهل الميت اهـ. والمراد طعام يشبعهم يومهم وليلتهم، فإن الغالب أن الحزن الشاغل عن تناول الطعام لا يستمر أكثر من يوم، وقيل: يحمل لهم طعام إلى ثلاثة أيام مدة التعزية، ثم إذا صنع لهم ما ذكر من أن يلح عليهم في الأكل لئلا يضعفوا بتركه استحياء، أو لفرط جزع، واصطناعه من بعيد أو قريب للنائحات شديد التحريم ; لأنه إعانة على المعصية، واصطناع أهل البيت له لأجل اجتماع الناس عليه بدعة مكروهة، بل صح عن جرير رضي الله عنه: كنا نعده من النياحة، وهو ظاهر في التحريم. قال الغزالي: ويكره الأكل منه".
"رد المحتار"(2/ 239):
" (قوله وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله - صلى ﷲ عليه وسلم - «اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاءهم ما يشغلهم» حسنه الترمذي وصححه الحاكم ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل؛لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون. اهـ".
"الدر المختار " (6/ 665):
"أوصى (بأن يتخذ الطعام بعد موته للناس ثلاثة أيام فالوصية باطلة) كما في الخانية عن أبي بكر البلخي، وفيها عن أبي جعفر: أوصى باتخاذ الطعام بعد موته ويطعم الذين يحضرون التعزية جاز من الثلث، ويحل لمن طال مقامه ومسافته لا لمن لم يطل ولو فضل طعام إن كثيرا يضمن وإلا لا اهـ.
قلت: وحمل المصنف الأول على طعام يجتمع له النائحات بقيد ثلاثة أيام فتكون وصية لهن فبطلت والثاني على ما كان لغيرهن".
"السنن الكبرى للبيهقي "(6/ 166):
عن علي بن زيد، عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه ".
"رد المحتار" (4/ 363):
وقال المصنف في المنح: ولما جرى التعامل في زماننا في البلاد الرومية وغيرها في وقف الدراهم والدنانير دخلت تحت قول محمد المفتى به في وقف كل منقول فيه تعامل كما لا يخفى؛ فلا يحتاج على هذا إلى تخصيص القول بجواز وقفها بمذهب الإمام زفر من رواية الأنصاري والله تعالى أعلم، وقد أفتى مولانا صاحب البحر بجواز وقفها ولم يحك خلافا. اهـ.
"بدائع الصنائع " (2/ 9):
"وأما الشرائط التي ترجع إلى المال فمنها: الملك فلا تجب الزكاة في سوائم الوقف والخيل المسبلة لعدم الملك وهذا؛ لأن في الزكاة تمليكا والتمليك في غير الملك لا يتصور. ولا تجب الزكاة في المال الذي استولى عليه العدو وأحرزوه بدراهم عندنا؛ لأنهم ملكوها بالإحراز عندنا فزال ملك المسلم عنها".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

01/صفر1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب