021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی تین طلاق کی مدعیہ،جبکہ شوہر منکر ہے
70037طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

ایک شخص نے اپنی بیوی کی طلاق کو ایک شرط کے ساتھ معلق کیا کہ اگر تو نے یہ کام کیا تو تجھے تین طلاق،شرط پائی جانے کے بعد شوہر اپنے قول سے مکر گیا ہے اور حلفا کہہ رہا ہے کہ میں نے اپنی بیوی کی طلاق کو اس شرط کے ساتھ معلق نہیں کیا تھا،جبکہ بیوی اس بات پر حلف اٹھانے کو تیار ہے کہ شوہر نے طلاق کو اس شرط کے ساتھ معلق کیا تھا اور یہ شرط پائی گئی ہے،بیوی کے پاس اس بارے میں کوئی گواہ نہیں ہے۔

جاننا یہ ہے کہ اب بیوی کے لیے شرعا کیا حکم ہے،آیا وہ اس شخص کے پاس رہے یا اس سے علیحدگی اختیار کرلے؟

موجودہ صورت حال یہ ہے کہ شوہر بیوی کو بضد اپنے پاس رکھنے پر اصرار کررہا ہے،جبکہ بیوی شرعی مسئلے کے پیش نظر اس شخص کے پاس نہیں رہنا چاہتی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر بیوی نے شوہر سے طلاق کو شرط کے ساتھ معلق کرنے کے یہ الفاظ خود سنے ہیں،لیکن اب شوہر غلط بیانی کرکےان الفاظ سے  انکار کررہا ہے تو ایسی صورت میں اولا شوہر کو خوفِ خدا دلا کر آخرت کے عذاب سے ڈرایا جائے اور اسے اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جائے کہ وہ غلط بیانی کرکے ساری عمر حرام کاری میں مبتلا ہونے کے بجائے طلاق کا اقرار کرلے ،اگر شوہر اس پر آمادہ نہ ہو تو مہر معاف کرکے یا اپنی استطاعت کے مطابق کچھ مال وغیرہ دے کر یا عدالتی چارہ جوئی کرکے عورت خود کو اس سے آزاد کروائے،اگرچہ مذکورہ صورت میں شوہر کے لیے عورت سےیہ مال لینا جائز نہیں ہوگا۔

اگر وہ کسی بھی طریقے سے اس کی جان چھوڑنے پر آمادہ نہ ہو تو عورت اس کا گھر چھوڑ کر میکے چلی جائے اور ہر ممکن طریقے سے اسے اپنے قریب آنے سے باز رکھے،قانونی طور پر اپنے تحفظ کے لیے عدالت کے ذریعہ سے خلع بھی لے سکتی ہے۔

حوالہ جات
"الفتاوى الهندية" (1/ 354):
" والمرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا سمعت منه ذلك أو شهد به شاهد عدل عندها".
 
"مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر "(1/ 441):
" وفي التتارخانية وغيرها سمعت المرأة من زوجها أنه طلقها ولا تقدر على منعه من نفسها إلا بقتله لها قتله بالدواء ولا تقتل نفسها وقيل لا تقتله وبه يفتى وترفع الأمر إلى القاضي فإن لم تكن لها بينة تحلفه فإن حلف فالإثم عليه لكن إن قتلته فلا شيء عليها".
"رد المحتار" (3/ 251):
" والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها إذا حرمت عليه وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله".

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم بالصواب

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

02/صفر1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب