021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کی زمین میں اس کی اجازت سے درخت لگالینا
68626امانتا اور عاریة کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

سوال:زید نے اپنی زندگی ہی میں اپنی جاگیرمیں اپنے تین بیٹوں کومتصرف بنا لیاتھا۔تینوں بیٹوں میں جاگیرتقسیم کردی تھی مگر مالکانہ حقوق نہ دیئےتھے۔صرف جاگیراستعمال کرنے کےلئے دی تھی۔زید کے تینوں بیٹوں نےاپنے اپنےحصے میں شجرکاری کی۔کچھ درخت زید کےزمانے میں بھی لگے ہوئے تھے۔تینوں بیٹوں کا زید کی عمر میں ہی انتقال ہوگیاتو یہ جاگیرزید کے پوتوں کے تصرف میں آگئی۔زید کے پوتوں نےبھی دادا کی جاگیرمیں شجرکاری کی۔تینوں بیٹوں کی وفات کے بعد زید بھی فوت ہوگیاجس کے شرعی ورثاءمیں پوتے،پوتیا ں اور دو بیٹیاں تھیں۔زید کی وفات کے بعد ان کے پوتوں نے زمین سےدرخت کاٹ کر بیچ ڈالےاوررقم آپس میں تقسیم کرلی۔

خلاصہ یہ نکلا کہ زید کی زمین میں تین طرح کے درخت ہوگئے۔1)زید کی شجرکاری2)زید کے بیٹوں کی شجرکاری3) زیدکے پوتوں کی شجرکاری۔ اب پوچھنایہ ہے کہ کیا سارے درخت زید کی ملکیت شمار ہونگے؟یا کچھ زید کی ملکیت کچھ اس کے بیٹوں اور کچھ اس کےپوتوں کی ملکیت شمار ہونگے؟اگریہی صورت شرعاً درست ہےتو پھر تینوں کے لگائے ہوئے درختوں کی  گنتی فقط اندازے سے معتبر ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زید نے اپنی زندگی میں اپنے بیٹوں کے تصرف میں جو زمین دی تھی اور اس زمین پرزید کے بیٹوں نے جودرخت لگائے تھےوہ سب درخت زید کے بیٹوں کی ملکیت شمار ہونگے،لہذابیٹوں کی وفات کے بعد یہ درخت زیداور اس کے پوتوں میں شرعی وراثت کے مطابق تقسیم ہونگے۔اس کے بعد زید کے پوتوں نے اس زمین پر جو درخت لگائے وہ سب زید کے پوتوں کی ملکیت شمار ہونگے،لہذا زید کی وفات کے بعد زید کے لگائے ہوئے درخت اور اس کی زمین اس کے پوتوں اور اس کی بیٹیوں میں تقسیم ہونگے ۔

لہذا صورت مسئولہ میں زید کے پوتوں نے جو درخت  لگائے ہیں وہ سب درخت ان کی اپنی ملکیت شمار ہونگے۔ پھرجو درخت ان کو اپنے والد اور دادا کی وراثت،اسی طرح جو درخت انہوں نے خود لگائےہیں ان سب کو فروخت کر کے جو انہوں نے رقم حاصل کی ہے اس کووہ آپس میں شرعی اعتبارسےتقسیم کریں گے،لیکن چونکہ دادا یعنی زید کی وفات کے بعد اس کے ورثاء میں زید کی بیٹیاں بھی ہیں،لہذا جو درخت زید نے خود لگائے ہوئے تھے ان میں سے دو تہائی درختوں کی مالیت کے بقدر رقم کی مستحق زیدکی بیٹیاں ہیں اور پوتوں پر شرعاً لازم ہے کہ ان درختوں میں سے جتنے درخت زیدنے خود لگائے تھے ان میں سے دوتہائی درختوں کی رقم زید کی بیٹیوں کو واپس کریں،کیونکہ وہ ان کا حق ہے۔باقی درختوں کی گنتی کا اندازہ غالب گمان اور اندازہ سے ہی کیا جاسکتا ہےکہ کتنے درخت زید نے خود لگائے تھے اور کتنے درخت زید کے بیٹوں نے لگائے تھے۔

حوالہ جات
مجلة الأحكام العدلية (ص: 159)
(المادة 831) استعارة الأرض للبناء عليها ولغرس الأشجار صحيحة إلا أن للمعير أن يرجع على الإعارة في أي وقت أراد وأن يطلب قلع ذلك.
درر الحكام شرح غرر الأحكام (7/ 138)
( صح الإعارة ) أي إعارة الأرض ( للبناء والغرس ) ؛ لأن منفعتها معلومة تملك بالإجارة فتملك بالإعارة ( وله ) أي للمعير ( أن يرجع ) ؛ لأن الإعارة ليست بلازمة ( ويكلف قلعهما ) أي البناء والغرس ؛ لأنه شاغل أرضه بملكه فيؤمر بالتفريغ إلا إذا شاء أن يأخذهما بقيمتهما إذا استضرت الأرض بالقلع
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (20/ 79)
( قوله وإن أعار أرضا للبناء أو الغراس صح ) لأن المنفعة معلومة ا هـ
شرح الوقاية لعلي الحنفي (5/ 14)
(وصح إعارة الأرض للبناء، والغرس) لأن كلا منهما (له) منفعة معلومة تملك بالإجارة فتملك بالإعارة، بل أولى لأنها تبرع (وله) أي للمعير (أن يرجع عنها) بعد أن يبني المستعير أو يغرس، لأن عقد الإعارة غير لازم (ويكلف) (المعير) المستعير (قلعهما) أي البناء والغرس، لأنه شغل أرضه بهما.

سیدقطب الدین حیدر  

دارالافتاءجامعۃالرشید کراچی

20/06/1441

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید قطب الدین حیدر بن سید امین الدین پاشا

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب