70210 | وقف کے مسائل | مسجد کے احکام و مسائل |
سوال
ہمارے محلے میں ایک چھوٹی مسجد تھی ۔ کچھ صاحب خیر حضرات نے اس کے برابر میں ایک بڑی جگہ خرید کر مسجد کے لیے وقف کردی ۔ پرانی مسجد کو شہید کرکے اس کو بھی دوسری نئی تعمیر شدہ مسجد کے ساتھ ضم کردیا گیا۔ لیکن اب پرانی مسجد (جہاں پہلے نمازیں پڑھی جاتی تھیں )کے نیچے (زیر زمین ) مسجد کے لیے پانی کے ایک ٹینک بنانے کا ارادہ ہے ، جس کا اکثر حصہ تو پرانی مسجد کے زیر زمین ہوگا، البتہ ٹینک کا منہ مسجد کے حدود سے خارج ہوگا۔ اسی طرح پرانی مسجد کے ایک حصے میں پہلی منزل پر جانے کے لیے سیڑھیاں بنانے کا بھی ارادہ ہے ۔ اس طرح جتنے حصے پر سیڑھیاں ہوں گی ،اس پر نماز نہیں پڑھی جاسکے گی ،بقیہ حصے پر پڑھی جاسکے گی ۔ توسوال یہ ہے کہ پرانی مسجد کے زیر زمین پانی کا ٹینک اور گراؤند فلور پر سیڑھیاں بنانا درست ہے یا نہیں ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ مسجد بنانے کے لئے وقف زمین کی جس جگہ پرایک دفعہ شرعی مسجد(مسجد کا وہ حصہ جہاں نماز پڑھی جاتی ہے) بن جائے وہ قیامت تک مسجد ہی رہتی ہے،نیز وہ جگہ تحت الثری (زمین کی تہہ )سے لیکر عنان السماء (آسمان) تک مسجد کے حکم میں ہوتی ہے ۔ اس لیے اس میں کوئی ایسا تصرف کرنا جس کی وجہ سے اس کی مسجدیت ختم ہو جائے اور اس میں نماز نہ پڑھی جا سکے شرعا ً جائز نہیں ہے۔
لہذا پرانی مسجد کو شہید کرکے اس کے جگہ نئی مسجد بناتے وقت پرانی مسجد کے نیچے پانی کا ٹینک بنانا یا پرانی مسجد کے گراؤنڈ فلور پر پہلی منزل پر جانے کے لیے سیڑھیاں بنانا جائز نہیں ہے ۔اس لیے کہ مذکورہ تعمیر کی صورت میں اتنے حصے کونماز کے علاوہ کسی اور مقصد کے ساتھ مشغول کرنا لازم آئے گا،جو کہ درست نہیں ہے ۔ اس لیے مسجد انتظامیہ کو چاہیے کہ جس نئے حصے پر مسجد تعمیر کی جارہی ہے ،اس میں ابتدائی تعمیر کے وقت سے ہی زیر زمین پانی کا ٹینک اور پہلی منزل پر جانے کے لیے سیڑھیاں بنالیں ۔ اس لیے کہ ابتدائی تعمیر کے وقت مذکورہ تصرفات کی فقہائے کرام نے اجازت دی ہے ۔
حوالہ جات
البحرالرائق(5/271)
وحاصله إن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى { وأن المساجد لله } الجن 18 بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفا لمصالح المسجد فإنه يجوز إذ لا ملك فيه لأحد بل هو من تتميم مصالح المسجد فهو كسرداب مسجد بيت المقدس هذا هو ظاهر المذهب وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 358)
لو بنى فوقه بيتا للإمام لا يضر لأنه من المصالح، أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع ولو قال عنيت ذلك لم يصدق تتارخانية،
حاشية ابن عابدين (1/ 661)
وقد رأيت رسالة للعلامة ابن أمير حاج بخطه متعلقة بغراس المسجد الأقصى رد فيها على من أفتى فيه أخذا من قولهم لو غرس شجرة للمسجد فثمرتها للمسجد فرد عليه بأنه لا يلزم من ذلك حل الغرس إلا للعذر المذكور لأن فيه شغل ما أعد للصلاة ونحوها وإن كان المسجد واسعا
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (3/ 330)
وأما الذي اتخذ بيتا لنفسه لم يكن خالصا لله تعالى فإن قيل لو جعل تحته حانوتا وجعله وقفا على المسجد قيل لا يستحب ذلك ولكنه لو جعل في الابتداء هكذا صار مسجدا وما تحته صار وقفا عليه ويجوز المسجد والوقف الذي تحته ولو أنه بنى المسجد أولا ثم أراد أن يجعل تحته حانوتا للمسجد فهو مردود باطل وينبغي أن يرد إلى حاله
المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة (6/ 97)
إذا أراد إنسان أن يتخذ تحت المسجد حوانيت غلة يلزمه المسجد أو فوقه ليس له ذلك.في «الحاوي» وفي «المنتقى»: إذا بنى الرجل مسجدا وبنى فوقه غرفة وهو في يده فله ذلك، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك بنى لا يترك.
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (2/ 594)
وفي البزازية ولا يجوز للقيم أن يجعل شيئا من المسجد مستغلا ولا مسكنا ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الشيخين وبه يفتى وعند محمد عاد إلى المالك ومثله حشيش المسجد وحصيره مع الاستغناء عنهما كما في المنح وفي البحر الفتوى على قول محمد في آلات المسجد وعلى قول أبي يوسف فی تأبيد المسجد
طلحہ بن قاسم
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
15/02/1442
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | طلحہ بن قاسم | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |