021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غیرمسلم ہونے کی حالت میں طلاق کی عدت
70125نکاح کا بیاننکاح کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میرے بھائی نے ایک نو مسلم عورت سے شادی کی ہے، تقریبا چھ ماہ قبل ایک ہندو عورت کو اس کے شوہر نے طلاق دی ،طلاق کےبعد تقریبا  پانچ ماہ سے زیادہ وقت ہوا ہے اور اب آج سے تقریبا بیس دین قبل وہ عورت دین اسلام میں داخل ہوئی،اب اس عورت کا نکاح تقریبا 13دن پہلے میرے بھائی کے ساتھ ہوا،برائے مہربانی آپ یہ بتائیں عدت کی مدت شوہر کے طلاق دینے کے بعد شروع ہوگی یا جس دن سے اسلام قبول کیا اس دن سے؟ اگر عدت اسلام قبول ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے تو پھر اس نکاح کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شوہر کی طرف سے اپنے طریقے کے مطابق طلاق مل چکی ہے ،جس کو چھ مہینے ہوگئے ہیں،اگر پہلے شوہر سے حمل نہ ہوتو اب مسلمان ہونے کے بعد فورا نکاح کرنا درست ہے، عدت کی ضرورت نہیں ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 526):
(ذمية غير حامل طلقها ذمي، أو مات عنها لم تعتد) عند أبي حنيفة (إذا اعتقدوا ذلك) لأنا أمرنا بتركهم وما يعتقدون (ولو) كانت الذمية (حاملا تعتد بوضعه) اتفاقا، وقيد الولوالجي بما إذا اعتقدوها.  (وكذا لا تعتد مسبية افترقت بتباين الدارين) لأن العدة حيث وجبت إنما وجبت حقا للعباد، والحربي ملحق بالجماد (إلا الحامل) .فلا يصح تزوجها لا لأنها معتدة، بل لأن في بطنها ولدا ثابت النسب (كحربية خرجت إلينا مسلمة، أو ذمية، أو مستأمنة ثم أسلمت وصارت ذمية) لما مر أنه ملحق بالجماد (إلا الحامل) لما مر.
 (قوله: طلقها ذمي) احترز به عن المسلم كما يأتي (قوله: لم تعتد عند أبي حنيفة) فلو تزوجها مسلم أو ذمي في فور طلاقها جاز كما في فتح القدير بحر

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

09/صفر1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب