021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تم مجھ سے طلاق لے لو،تم میری طرف سے آزاد ہو پوری طرح
70270طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

میرا نام علی ہے،مجھے طلاق کے حوالے سے ایک مسئلہ درپیش ہے،جس کی وجہ سے مجھے آپ سے رجوع کرنا پڑرہا ہے،میری بیوی کے ساتھ کچھ دن پہلے لڑائی ہوئی،لڑائی کسی بڑی وجہ سے نہیں ہوئی،میں نے بیوی کو بولا کہ تم مجھ سے طلاق لے لو،پھر میری بیوی نے دوبارہ مجھے کہا کہ مجھے معاف کرو،یعنی میری جان چھوڑدو،جس کے جواب میں میں نے کہہ دیا کہ ایک بار ہی اب کروں گا،اس کے بعد وہ آف لائن ہوگئی،پھر تھوڑی دیر بعد میں نے خود ہی میسج کیا اور اس میسج میں بھی میں نے کہا کہ طلاق کے علاوہ کوئی حل نہیں،حالانکہ یہ بات میں نے اس لئے کی کہ اس کو طلاق کا لفظ برا لگتا تھا تو اسے خود بھی رشتے کا احساس ہوجاتا تھا،یہ بات ختم ہوچکی تھی،اس کے بعد میں نے جواب نہیں دیا،پھر سات منٹ کے وقفے کے بعد میں نے اسے میسج کیا اور بولا تمہیں برا لگتا ہے مجھے حساب دینا ،میں کوئی بھی حساب نہیں لوں گا تم سے،جب مرضی جاگو،تم میری طرف سے آزاد ہو پوری طرح سے،کیونکہ وہ مجھے بار بار کہہ رہی تھی کہ تمہیں میرے سونے سے بھی مسئلہ ہے،جاگنے سے بھی وغیرہ وغیرہ،اس کے جواب میں میں نے یہ بات کہی تھی اور یہ کہتے وقت میرا ارادہ طلاق کا نہیں تھا،نہ میرے دماغ میں کوئی بات ایسی کوئی بات تھی اور نہ ہی مجھے معلوم تھا کہ ایسے بھی طلاق ہوتی ہے،کیونکہ میری پسند کی شادی ہے اور میں اسے چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا،نہ ہی مجھے اس مسئلے کے بارے میں علم تھا،جب میں نے یوٹیوب پر اس مسئلے کے حوالے سے بیان سنا تو میں مزید پریشانی میں مبتلا ہوچکا ہوں،مجھے مسئلے کے بارے میں کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ کیا اس طرح سے طلاق ہوگئی یا نہیں،مہربانی کرکے میری راہنمائی فرمائیں،تاکہ نہ میں اپنے رب کی نظر میں گنہگار کہلاؤں اور نہ ہی اپنا آنگن تباہ کروں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

"تم مجھے سے طلاق لے لو" ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،کیونکہ یہ جملہ طلاق کے انشاء کا نہیں،بلکہ بیوی کو طلاق کے مطالبے کا حکم ہے،جبکہ بیوی نے اس پر عمل نہیں کیا۔

جبکہ "تم میری طرف سے آزاد ہو" طلاق کےایسے الفاظ میں سے ہے،جو سیاق و سباق اور خاص عرف کی دلالت کی وجہ سے کبھی طلاق کے لئے استعمال ہوتا ہے اور کبھی کسی اور معنی کے لیے،چونکہ مذکورہ صورت میں آپ نے یہ جملہ طلاق کے معنی میں استعمال نہیں کیا،بلکہ سونے جاگنے کے حوالے سے اختیار کی آزادی دینے کے لیے استعمال کیا ہے،جس کا قرینہ یہ ہے کہ آپ نے یہ جملہ بیوی کی اس بات کے جواب میں کہا کہ تمہیں میرے سونے سے بھی مسئلہ ہے اور جاگنے سے بھی،اس لیے اس سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،لیکن آئندہ کے لیے طلاق یا ایسے الفاظ استعمال کرنے میں احتیاط سے کام لیں جو ازدواجی رشتے کے ختم کرنے پر دلالت کرتے ہیں۔

حوالہ جات
"الدر المختار"(3/ 300):
"(تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول لہ بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

25/صفر1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب