70264 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے میں کہ ہم چھ بھائی اورچاربہنیں ہیں،والدصاحب حیا ت ہے،والدصاحب نے اپنے چاربیٹوں کواپنی جائیداد میں سے ایک عددفلیٹ دیدیاہے اورباقی دوبیٹوں میں سے ہرایک کو دس لاکھ روپے دینے کاوعدہ کیاہے۔
بقیہ جائیداد جوکہ کھیتی باڑی یعنی زمینداری ہے وہ والدصاحب کے نام ہے،پوچھنایہ ہے کہ والدصاحب کی وفات کے بعدبیٹوں کاجائیداد میں حصہ ہے یانہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
زندگی میں اپنے بیٹوں اوربیٹیوں کوہبہ دینے کے حوالہ سے شرعی تعلیم یہ ہے کہ اپنی تمام اولاد میں برابری کرتے ہوئے سب کواپنی ملکیت میں سےبرابر یاکم ازکم ہرلڑکی کولڑکے کے مقابلے میں نصف دیاجائے،صرف لڑکوں کو ہبہ کرنا اور لڑکیوں کومکمل محروم کرنا شرعاً درست اقدام نہیں اوریہ گناہ ہے ، لہذاوالدکوچاہیے کہ وہ لڑکیوں کوبھی کچھ دے۔
والد کاچاربیٹوں کوایک فلیٹ دینا شرعی طورپرہبہ کہلاتاہے،جس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر یہ فلیٹ قابل تقسیم ہےیعنی اس کی حسی تقسیم کے بعد بھی ہرشریک کے لئے قابل استعمال رہتاہے اوروالدنے كمرے تقسیم كئے بغیر چاروں بیٹوں کوہبہ کردیا توایسی صورت میں یہ ہبہ درست نہیں ہوااورمذکورہ فلیٹ والد کی ملکیت ہی شمارہوگااوراگرتقسیم کرکے دیاہے یایہ فلیٹ قابل تقسیم ہی نہیں یعنی تقسیم کی صورت میں اس سے کام نہیں لیاجاسکتاتوایسی صورت میں قبضہ کے ساتھ ہبہ مکمل ہوگیا ہے۔
والدصاحب کی وفات کی صورت میں تمام ورثہ یعنی بہن بھائی وغیرہ ترکہ میں اپنے حصوں کے مطابق حق دارہوں گے،زندگی میں والدکی طرف سے ہبہ ملنے کی وجہ سے کوئی بیٹایابیٹی محروم نہیں ہوتاہے۔
حوالہ جات
فی خلاصة الفتاوی ج: 4ص: 400
”رجل لہ ابن وبنت اراد ان یھب لھما فالافضل ان یجعل للذکرمثل حظ الانثیین عندمحمد وعند ابی یوسف رحمہ اللہ بینھماسواء ھو المختارلورود الآثار. “
وفی رد المحتار (ج 24 / ص 42):
”وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب ، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار ، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم. “
وفی رد المحتار (ج 24 / ص 42):
”( قوله وعليه الفتوى ) أي على قول أبي يوسف : من أن التنصيف بين الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي هو قول محمد رملي. “
وفی تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (ج 14 / ص 282):
قال علماؤنا: هبة المشاع فيما يحتمل القسمة لا تتم ولا تفيد الملك قبل القسمة.
وفی رد المحتار (ج 6 / ص 261):
هبة المشاع فيما يقسم لا تفيد الملك عند أبي حنيفة، وفي القهستاني: لا تفيد الملك، وهو المختار كما في المضمرات، وهذا مروي عن أبي حنيفة وهو الصحيح.
۔۔
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |