021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
صرافہ مارکیٹ میں مستقبل کے سودے اور ضمان، ان کے متبادل اور متبادل کی صورت میں آنے والے مختلف مسائل کا حکم
70303خرید و فروخت کے احکامبیع صرف سونے چاندی اور کرنسی نوٹوں کی خریدوفروخت کا بیان

سوال

اس وقت ملک میں موجود تمام صرافہ مارکیٹیں ایک شرعاً ناجائز طریقہ کار پر چل رہی ہیں۔ اس کی  صورت یہ ہے کہ ملک کی تمام  مارکیٹوں میں ٹیلی فون کے ذریعے یا  خریدنے اور بیچنے والا  آمنے سامنے، بغیر قبضہ کیے سودے کرتے ہیں۔ یہ سودے آج کے دن یعنی ریڈی بھی کیے جاتے ہیں اور مستقبل کی تاریخوں کے لیے یعنی کل کے لیے، پرسوں کے لیے، 3 دن بعد، ویکلی، ڈبل ویکلی، منتھلی  وغیرہ  کے بھی کیے جاتے ہیں۔ اس کا حل جامعۃ الرشید کے فتوی میں "وعدہ بیع" کا بتایا گیا ہے اور اس حل کا لاگو ہونا مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر نہایت ضروری ہے:

1.     سونا کم ریٹ والی مارکیٹ سے زیادہ ریٹ والی مارکیٹ کی طرف بیچا جاتا ہے مثلا پنڈی کا ریٹ پشاور سے زیادہ ہے، اب پشاور والے پنڈی والوں پر سونا فروخت کریں گے جبکہ قبضہ وغیرہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔  بس فون ملایا اور کہا " 300 تولے تواڈا ہوا" تو بس ہو گیا۔ پھر یوں بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک دم پشاور کا ریٹ بڑھ گیا تو پنڈی والے واپس پشاور میں مال بغیر قبضہ کیے فروخت کر دیتے ہیں اور ریٹ کا اتار چڑھاؤ آپس میں برابر کر لیتے ہیں۔ یہ معاملہ تو ناجائز ہے لیکن اس کی جواز کی صورت وعدہ بیع کی ہے جس کے بعد باقاعدہ بیع اور قبضہ ہو۔

2.     دوسری وجہ عالمی منڈی ہےجو رات 2 سے 3 بجے اور ہفتے کی رات 2 بجے سے پیر کی صبح 3 بجے تک بند رہتی ہے، باقی وہ   کھلی رہتی ہے۔ اب ڈیلر  رات کو گھر آیا اور اس نے نیوز دیکھی یا کوئی ایسی رپورٹ یا افواہ یا ایسی اچھی خبر جس سے  لگ رہا ہے کہ عالمی منڈی میں سونے کی قیمت نیچے آئے گی تو  اب وہ کس سے سودا کریں اور قبضہ کیسے دیں؟یہاں بھی اب اسے پہلے وعدہ بیع کرنا ہوگا۔

3.     باہر کی معیشتیں ڈاکیومینٹڈ ہیں۔ ان کی معیشتوں سے متعلق کونسی رپورٹ کس وقت آنی ہے؟ کونسا ڈیٹا کس وقت ریلیز ہونا  ہے اور کس کی تقریر کس وقت ہے؟ یہ سب معلوم ہوتا ہے (اور اس کا باقاعدہ ایک کیلینڈر موجود ہے جسے fx calendar  کہتے ہیں) جس کی بنیاد پر  مارکیٹوں میں ہر وقت ریٹ اوپر نیچے ہو رہا ہوتا ہے۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ چند منٹ میں مارکیٹ 70 ڈالر اوپر گئی اور دھڑام سے سو ڈالر نیچے آگئی۔ اس دوران فون پہ بہت سے ڈیلنگز ہو جاتی ہیں جن کا قبضہ وغیرہ کچھ بھی نہیں ہوتا وہ بعد میں کیا جاتا ہے۔ یعنی مارکیٹ اتنی تیز ہے کہ پل بھر میں بہت سے  سودے ہو جاتے ہیں۔ اب یہاں بھی وعدہ بیع از حد ضروری ہے کہ پہلے وعدہ کریں پھر بعد میں بیع کر لیں۔ یعنی اتنی تیز ڈیلنگز جب لوگ کرتے ہوں تو قبضہ اور رقوم کی منتقلی کے لیے وقت درکار ہوگا جبکہ بیع میں اسی مجلس میں کرنسی یا سونے میں سے کسی ایک چیز  پر قبضہ کرنا ہوتا ہے جو یہاں نا ممکن ہے اور مستقبل کے لیے جو سودے ہوتے ہیں وہ تو ناجائز ہی ہیں۔ لیکن وعدہ بیع کے ذریعے سے ان معاملات کے لیے بھی جواز کی صورت نکالی جا سکتی ہے۔

4.     سونے اور رقم کی منتقلی وغیرہ میں ایسے رسکس ہوتے ہیں یا operational delay یا مثلا پیسے تھوڑی دیر بعد ملنے ہیں، اس طرح کی کئی وجوہات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے اسی وقت قبضہ دینا اور لینا مناسب نہیں ہوتا۔ جبکہ ریٹ  کو دوسرے فریق کے ساتھ ایک  جگہ پہ روکنا ضروری ہوتا ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ ہم بعد میں عقد کریں اور ریٹ بدل چکا ہو۔  تو یہاں بھی وعدہ  بیع کرنا ہوگا تاکہ سامنے والا کسی ایک ریٹ کا پابند  ہو اور بعد میں ہم  باقاعدہ بیع کر لیں۔

5.     مارکیٹ میں بڑے پیمانے پر اپنے پاس موجود سونے سے زیادہ کی بیع بھی ہو رہی ہوتی ہے جس  میں بعد میں لین دین کر لی جاتی ہے۔ یہ بھی وعدہ بیع پر ہی جائز ہو سکتا ہے۔

6.     اسی طرح اپنے پاس موجود کرنسی سے زیادہ کی بیع بھی ہوتی ہے۔ مثلاً کسی شخص کے پاس 10 لاکھ ہیں اور وہ اس سے کہیں زیادہ مالیت کی کئی لاٹیں خرید لیتا ہے۔

بازاروں کی صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کی تمام صرافہ مارکیٹیں "تیرا ہوا، میرا ہوا" پر چل رہی ہیں۔ اس کی صورت حال یوں ہوتی ہے کہ ایک شخص گروپ میں مختصر  آفر کرتا ہے: "کل تک 10 تولے، 117000 (فی تولہ)"، کوئی بھی بیچنے والا اسے جواب دے دیتا ہے: "تمہارا ہوا"، اور بس۔ یہ بیع مکمل سمجھی جاتی ہے۔ یہ کام مختلف علاقوں کی مارکیٹوں میں وہاں کی زبان کے مطابق ہو رہا ہوتا ہے، مثلاً پشتو میں "ستا شوا" اور "زما شوا" وغیرہ، پنجابی میں "تہاڈا ہوا" وغیرہ  ۔ اسی طرح "میرے لیے لکھ دو" کے الفاظ اور اس کے متبادل دوسری زبانوں کے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں۔

اس بیع میں یہاں نہ قبضہ ہوتا ہے اور نہ کچھ اور۔  پھر اس میں ڈیلرز دو طبقات میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ پہلا طبقہ وہ ہے جو مارکیٹ کے ساتھ چلتا ہے، یعنی جائز اور ناجائز کی پرواہ کیے بغیر جس کے ساتھ جیسی ڈیل بھی ہو جائے وہ کرتے ہیں۔ ان کا کام صرف پیسہ بنانا ہے خواہ جس طریقے سے بھی ہو۔ ایسے حضرات  فون پہ یا آمنے سامنے  خرید و فروخت  کرتے ہیں اور قبضہ بعد میں ہو یا نہ ہو، اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو بھی مارکیٹ میں نا جائز صورتیں  ہوں سب کو استعمال کرتے ہیں۔

دوسرا طبقہ،  جس میں زیادہ تر دیندار حضرات ہیں جیسے تبلیغ والے حتی کہ بندے نے اپنی مارکیٹ میں دو علماء کرام کو بھی اس قسم کے معاملات کرتے دیکھا(جو میں آگے لکھ رہا ہوں)، وہ یہ کہ اس طبقے والے سودا تو فون پہ ہی کرتے ہیں یا آمنے سامنے بھی کرتے ہیں لیکن قبضہ کو یہ لوگ ضروری سمجھتے ہیں اور قبضہ بعد میں ضرور کرتے ہیں۔  ہمارے خیال میں ان کے نزدیک مارکیٹ کے رخ کے ساتھ چل کر قبضہ وغیرہ کرنا وہ ہے جسے مارکیٹ میں سودا اٹھانا بھی کہتے ہیں۔ یعنی ان کے نزدیک بے شک زبان سے تیرا ہوا میرا ہوا جیسے الفاظ سے آج کے دن کے لیے اور مستقبل کی تاریخوں کے لیے بیع کرو لیکن سودا ہر حال میں اٹھاؤ، یعنی قبضہ بعد میں کر لو۔ اس طریقے کو یہ طبقہ بھی جائز سمجھتا ہے حالانکہ اگر دیکھا جائے تو یہ بھی ناجائز ہے کیوں کہ اس میں مجلس میں ایک عوض پر قبضہ نہیں ہوتا۔

اب ان حضرات کے معاملات میں بھی قبضہ کرنے کی مختلف صورتیں ہیں مثلا میرا زید  سے لینے کا سودا ہوا ہے مستقبل میں۔ اب میں اس تاریخ کو زید  کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ جو ہمارا سودا ہوا تھا وہ سونا دے دو۔ اس نے مجھے کہا کہ  علی سے لے لو تو میں زید  کو کہتا ہوں کہ میں تمہارا وکیل بن کے علی  سے تمہارا سونا لا رہا ہوں(یہاں یہ بھی عرض کروں کے زید نے علی کے ساتھ بھی اسی مارکیٹ کے ناجائز طریقے سے ہی سودا کیا ہوتا ہے یعنی تیرا ہوا میرا ہوا اور قبضہ وغیرہ بعد میں)۔ اب میں زید کا وکیل بن کے علی سے سونا لا کر زید کو دے دیتا ہوں کہ یہ علی سے آپ کا سونا میں لے آیا ہوں،  اب تم مجھےجس طرح ہماری بات ہوئ تھی اس کے مطابق یہ سونا دے دو  ۔

ایک قبضہ کی صورت یہ ہے کہ آپ کو کسی اور کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ فلاں سے اٹھا لو اس کے پاس جب پہنچے تو اس نے کہا فلاں سے اٹھا لو! اس طرح کسی ایک کے پاس سے آخر کار سونا فراہم ہو جاتا ہے۔ یہ جو "فلاں سے اٹھا لو" والا طبقہ ہے یہ وہی پہلا طبقہ ہے جن کے نزدیک قبضہ کوئی ضروری نہیں ہوتا۔ بس ہمیں ریٹ کا فرقہ یعنی difference مل جائے گا یا اگر نقصان ہوا ہے تو difference دے دیں گے۔ یہ صورت پہلے والے سے ملتی جلتی ہے لیکن اس میں وکیل نہیں بنایا جاتا۔

ایک اور  صورت یہ ہے کہ زید مجھے ڈائریکٹ دے دیتا ہے کسی کے پاس نہ وکیل کے طور پر بھیجتا ہے نہ حوالے وغیرہ۔وعدہ کے ذریعے  ان معاملوں کو بھی کچھ حد تک جواز کی صورت دی جا سکتی ہے کہ اگر میرے اور زید کے بیچ وعدہ ہو اور میں زید کو اس بات کا پابند کروں کہ سونا مجھے تم سے ہی لینا ہے، نہ کسی کا حوالہ دو گے اور نہ ہی میں تمہارا وکیل بن کے کسی کے پاس جاونگا۔ بے شک تم باہر والے سے جیسا بھی معاملہ کرو اس کا میں مکلف نہیں لیکن میرے ساتھ اس ترتیب پہ چلنا ہوگا۔ اس طرح کرنے سے کم ازکم میرا اور زید کا معاملہ تو درست ہو جائے گا۔ یہ تفصیل  مارکیٹ میں ان لوگوں کی ہے جو  زیادہ تر دیندار سمجھے جاتے ہیں۔

یہ سب معاملات اور اس کے ساتھ ساتھ اور بھی پیچیدہ قسم کے معاملے پاکستان کے ہر صرافہ مارکیٹ میں ہو رہے ہیں اور ایک المیہ آپ حضرات کے علم میں لانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ اب تک بندے کے علم میں خام سونے کا کاروبار کرنے والا کوئی ایک بندہ بھی ہم نے نہیں دیکھا جو اس طرح کی ڈیلنگز نہ کرتا ہو خواہ وہ پاکستان کی کوئی بھی سونے کی مارکیٹ ہو اس کے ساتھ ساتھ جو کتابیں اردو زبان میں  اس موضوع  پہ موجود ہیں جن میں دو سر فہرست ہیں ایک زیورات کے مسائل مفتی عبدالروف صاحب مدظلہم کی اور دوسرا سونا چاندی کے زیورات اور اس کے اسلامی احکام ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب رحمت اللہ علیہ کی ان دونوں کتابوں میں اس مسئلے کا جواب ہمیں نہیں ملا۔

اب وعدہ بیع کے حوالے سے مندرجہ ذیل مسائل ہیں:

1.     وعدہ بیع کو پاکستان میں موجود  تمام صرافہ بازاروں میں کوئی نہیں جانتا اگر علماء نے ان کو بتایا بھی ہو تب بھی یہ لوگ الفاظ وعدے کے استعمال کریں گے جبکہ اسے بیع ہی سمجھیں گے   مارکیٹوں میں وہی پرانا سسٹم سالوں سے چل رہا ہے اور وہ یہ کہ زبان کی بات کو سودا/بیع کہا جاتا ہے۔

2.     اس بابت علماء کرام  سے جب ہماری بات ہوئ کہ کس قسم کی ڈیل کو سودا/بیع کہیں گے اور کس قسم کی ڈیل کو وعدہ بیع/سودے کا وعدہ کہیں گے؟ کیونکہ حضرت کی کتاب میں بھی جب ان ڈیلنگز کی بعض صورتوں کے  بارے میں سوال لکھا ہے تو جواب میں صرف اتنی بات لکھی ہے کہ اس طرح بیع نہیں ہو سکتی، البتہ وعدہ بیع کر لیں اور بعد میں باقاعدہ عقد کر کے بیع کی جائے جبکہ وعدہ بیع کی تفصیل ندارد، تو علماء کرام  نے جو تفصیل بتائی اس میں بیع اور وعدہ بیع میں ایک باریک سا فرق تھا۔ اس باریک فرق کوزبانی سب ڈیلرز تک نہیں  پہنچایا جا سکتا  اور ایک ایک کو سمجھانے میں حرج  بھی ہے۔ بہر حال جو فرق  علماء کرام نے بتایا وہ یہ کہ اگر آپ کسی سے وعدہ بیع کے الفاظ کے ساتھ سونے کا وعدہ کریں، اور وہ دوسرا بھی وعدہ ہی کرے، جبکہ  دل ہی دل میں کوئی پارٹی اسے بیع سمجھتی ہو کہ فلاں تاریخ کو اس کا اتنا سونا ہوگیا یا دوسرا یوں سمجھے کہ اتنا سونا میرا ہوگیا،  تو اگرچہ الفاظ وعدہ  بیع کے استعمال ہوئے ہیں پھر بھی یہ بیع ہی ہوگی، اور ظاہر ہے وہ نا جائز ہو جائیگی کیونکہ قبضہ نہیں ہوا۔ جبکہ مارکیٹیں سالوں سے زبان کی اتنی پابند ہو کے چلی ہے کہ ان مارکیٹوں میں زبان کی بات کو done سمجھا جاتا ہے خواہ وہ بیع کے عنوان سے ہو یا وعدہ بیع کے عنوان سے۔

3.     مارکیٹ کی تفصیل اور نفسیات آپ کے سامنے ہیں اس ماحول میں وعدہ بیع کو کیسے شروع کیا جائے جبکہ بیع اور وعدہ بیع میں بہت ہلکا سا فرق ہے۔ اگر ہم وعدہ بیع کریں اور دوسرا اسے بیع سمجھے تو اس کا معیار کیا ہوگا کہ یہ وعدہ ہے یا بیع ہے؟ کیونکہ دوسرے کی نیت کے تو ہم مکلف نہیں ہو سکتے اور نا ہمیں معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ اسے کیا سمجھ رہا ہے  اس بات کو بے غبار کرنا ہوگا کیونکہ عوام الناس اتنی باریکیوں میں نہیں جائیں گے۔

4.     یہ مسئلہ چونکہ تمام بازاروں کا ہے اور ہمارا ایک گروپ ٹیلی گرام کے اوپر "سونا چاندی کی خرید و فروخت کے شرعی احکام" کے نام سے  موجود ہے جس میں جو بھی سوال ہوتا ہے اس کا تانا بانا اسی مسئلے سےآکر مل جاتا ہے۔  اب آپ مفتیان کرام جو جواب  دیں گے اس کو ہم نے اپنی بساط کے مطابق پورے پاکستان کے بازاروں میں پھیلانا ہے تو گزارش ہے کہ جو بھی جواب  ہو، ہم نے فتوے کو  سب تک پہنچانا ہے اور ساتھ جدید ذرائع ابلاغ کو بھی استعمال میں لانا ہے جیسے  ٹیلی گرام واٹس ایپ وغیرہ، اس لیے وہ حل جب فتوے کی شکل میں مرتب ہو تو اول مارکیٹ کے ناجائز معاملات کو لکھا جائے اس کے بعد حل لکھ لیں، اور چونکہ مسئلہ عوام الناس کا ہے تو ہم ان سے یوں کہیں  کہ مارکیٹ ایسے چل رہی ہے، یہ جائز نہیں اور ساتھ میں یہ حل ہے آپ نے جس سے ڈیلنگز شروع کرنی ہے۔ پہلے اسے یہ سب سمجھا دیں اگر وہ مان جائے تو ان کے ساتھ فتوے کے مطابق کام کریں۔ مطلب بات عوام الناس کی ہے اور جواب سب کو پہنچنا ہے انشاءاللہ اس لیے اگر آسان الفاظ میں فتوی آجائے تو بہت سہولت ہوگی(سوال میں بھی اگر کوئی لفظ مشکل ہو عوام کے لیے وہ بھی تبدیل کر لیں جیسے بیع وعدہ بیع اکثر عوام نہیں جانتے)۔

5.     اب سب مارکیٹیں اگرچہ ناجائز معاملات کرتی چلی آئی ہیں لیکن زبان کی پابند ہو کر آئی ہیں تو اگر وعدہ بھی ہوگا تو مارکیٹ والے  سودے سے پیچھے ہٹنے کا سوچ بھی نہیں سکتے(یہ صورت حال اس قدر مضبوط ہے کہ پیچھے ہٹنے پر یا تو وہ شخص  مارکیٹ کو چھوڑ کے بھاگ جائے گا  یا مارکیٹ میں فرق ہر حال میں دے کر ہی جان چھڑاے گا اور دونوں جائز نہیں) ۔اگر وعدہ بیع ہو تو ضرور دل میں یہی ہوگا کہ بس ڈن ہے سونا ملنا ہی ملنا ہے اب اس معیار (بیع و وعدہ بیع) کو اگر دل کے خیال پر مو قوف کیا جائے گا تو میں بھی اگر کسی سے وعدہ کرونگا تو میرے دل میں بھی یہی بات ہوگی کہ سونا میرا ہی ہے کیونکہ مارکیٹوں میں زبان کی بات کو ہر حال میں پورا کرنا ہوتا ہے۔ اب  اس ماحول کی مارکیٹ  میں اس مسئلے کو کیسے  نافذ کرنا ہے؟

وعدہ بیع کی صورت میں اگر کوئی شخص وعدہ پورا نہیں کرتاتو اس سے نقصان لیا جاتا ہے۔ اس کی کیا صورت ہوگی؟ اس حوالے سے کچھ اشکالات ہیں:

1.     حقیقی نقصان کیا ہے؟ مثلا میرا زید سے آنے والے پیر کے دن وعدہ ہوا کہ 10 تولہ 100000 فی تولہ کے حساب سے مجھے دینا ہے۔ اب میں نے عمرو سے وعدہ کیا کہ 10 تولہ آپ کو 100500 پہ دونگا۔ اب ریٹ زیادہ ہوا اور وہ دن جب آیا تو ریٹ 101000 پہ تھا۔  زید نے کہا کہ میں وعدہ پورا نہیں کرتا۔ اب میں مارکیٹ سے 101000 پہ دس تولہ لے کے عمرو کو 100500 پر دے دونگا۔ اس میں مجھے فی تولہ 500 کا نقصان ہوا جو میں زید  سے لے لونگا۔ یہاں تک تو بات سمجھ میں آگئ ۔ اب اسی مثال میں میں نے زید سے 10 تولہ 100000  فی تولہ کے حساب  سے لینے کا وعدہ کیا۔  جب بیع کا وقت آیا تو ریٹ 101000تھا۔ میں نے کسی تیسرے کو دینے کا  وعدہ نہیں کیا۔ اب زید وعدہ پورا نہیں کر رہا  تو یہاں بات میرے اختیار میں آگئی۔ اب اگر میں اس کو کہوں کہ ٹھیک ہے وعدہ پورا نہ کرو کیونکہ میں نے ویسے بھی کسی کو دینے کا وعدہ نہیں کیا تو اس طرح  زید ضمان سے بچ جائے گا، اور اگر میں اپنے لیے مارکیٹ سے لوں(اور میں ضرور لوں گا کیونکہ ریٹ زیادہ ہو چکا ہے اور مجھے نفع حاصل کرنا ہے)  تو زید ضمان   میں پھنس جائے گا  ۔  جو اپنا معاملہ شریعت کے مطابق کرنا چاہتا ہو وہ ضرور ایسا کرے گا کیونکہ ایک تو جو شخص وعدے سے پیچھے ہٹا اس کو سزا مل جائے گی دوسرا اس سے ضمان لینے سے میں نے جو سونا ابھی مہنگا لیا ہے مارکیٹ سے، وہ مجھے اسی ریٹ پہ مل جائے گاجس پر میں نے زید سے وعدہ کیا تھا۔  یہ صورت اس وقت کی ہے جب ریٹ بڑھ جائے اور دینے والا وعدہ پورا نہ کرے۔ کیا یہ مسلہ ایسا ہی ہے؟ یعنی جو صورت ضمان کی بیان کی گئی ہے اس طرح سے لے سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو ایسے بندے کو کیسے ضمان میں پھنسائیں گے؟

2.     اس کے برعکس ایک اور صورت ہے۔ وہ یہ کہ وعدہ ہو فریقین کا اور ریٹ کم ہو جائے۔ اب لینے والا یوں کہے کہ میں وعدہ پورا نہیں کرتا۔  مثلاً میں نے دس تولے  وعدہ کیا ہے دینے کا 100000 روپے فی  تولہ کے حساب سے اب جب عقد کا وقت آیا تو ریٹ تھا 99000 اور لینے والا وعدہ پورا نہیں کر رہا۔ اب معاملہ یہ ہو کہ میرا کسی تیسرے سے وعدہ ہوا ہو۔ وہ سونا لے آئے  اور اس سے میں وعدے کے مطابق لے لوں جبکہ  اس کا ریٹ کم ہو گیا ہو اور جس کو دینے  کا وعدہ ہوا ہے وہ پیچھے ہٹ جائے تو میں یہی سونا مارکیٹ میں بیچ کر جو نقصان اٹھاؤں گا وہ وعدے سے پیچھے ہٹنے والے سے لے لوں گا۔ کیا یہ مسلہ ایسا ہی ہے؟

3.     اگر کوئی شخص جھوٹ بول کر صرف دوسرے کو پھنسانے کے لیے کہے کہ مجھے تمہاری وعدہ خلافی کی وجہ سے اتنا اتنا نقصان ہوا ہے اور زیادہ نقصان بتائے تو اس کا کیا حل ہوگا؟

4.     مارکیٹ میں ہر ڈیلر روزانہ پچاس ساٹھ سے زیادہ معاملات کرتا ہے۔ وعدہ بیع کی صورت میں وہ اتنے وعدے کرے گا اور جب کوئی شخص وعدے سے پیچھے ہٹے گا تو اسے وہ کسی بھی دوسرے وعدے کا حوالہ دے دے گا کہ میں نے فلاں وعدہ تمہاری وجہ سے کیا تھا اور مجھے اتنا نقصان ہوا ہے۔ فرق کی صورت میں تو ریٹ واضح ہوتا ہے۔ حقیقی نقصان کی صورت میں ریٹ معلوم نہیں ہوتا تو روز آپس میں لڑائی اور فساد ہوگا۔

مارکیٹ میں ایک ہی بندے سے دو سودے بھی ہوتے ہیں۔ اس قسم کے معاملے کو پھر یوں تکمیل تک پہنچایا جاتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ سودا cross کر لیتے ہیں۔ cross کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ویسے بھی تمہیں دینا ہے اور تم سے واپس لینا تو کیا لینا دینا کرنا، بس سودا cross کر لو یعنی ریٹ کا فرق ایک دوسرے کے ساتھ برابر کر لیتے ہیں۔ اب اس صورت میں دو چیزیں نا جائز ہو گئیں: ایک تو ان دونوں نے بیع بغیر قبضے کے کر لی۔ دوسرا اس کے بعد ایک دوسرے سے ریٹ کا اتار چڑھاؤ  difference کی صورت میں وصول کر لیا۔ جب وعدہ بیع سے لوگ اپنے معاملات شروع کریں گے تو اس میں بھی یہ صورت آئے گی کہ لینے اور دینے کا وعدہ کسی ایک سے ہوا ہوگا۔ اس کی پھر دو صورتیں بنتی ہیں:

1.     میرا زید کو 10 تولے کل کے لیے اسے دینے کا وعدہ ہے ایک لاکھ روپے فی تولہ کے حساب سے۔ اب یہ وعدہ پورا ہونے سے پہلے اس نے دوبارہ مجھے دس تولے دینے کا وعدہ کیا  99500 پر۔یہا ں یہ بات میں واضح کر دوں کہ اس طرح کے معاملے میں کرنسی کا استعمال نہیں ہوگا بلکہ  ان وعدوں سے جس فریق کو جو نقصان ہوگا یا جس فریق کو جو نفع ہوگا صرف اسی کی ادائیگی ہونی ہے۔ اب مذکورہ صورت میں جب یہ دونوں وعدے پورے ہونگے تو میں نے اس کو پہلے دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن میں اس سے یوں کہو ں گا کہ تم پہلے اپنا وعدہ پورا کرو۔ اس نے وعدے کے مطابق مجھے 99500 فی تولہ کے حساب سے دس تولہ سونا دے دیا۔ پھر میرا بھی اس کو ایک لاکھ فی تولہ کے حساب سے دس تولہ سونا دینے کا وعدہ ہوا ہے تو میں وہی سونا اس کو واپس وعدے کے مطابق فروخت کر دیتا ہوں اور 500 روپے فی تولہ کے حساب سے اس سے نفع وصول کر لیتا ہوں۔ یہاں اگر میں پہلے اس کو دینے کا وعدہ پورا کرتا تو یہ صورت بیع عینہ  کی بن جاتی کیونکہ اس طرح کے معاملات میں ثمن قرض ہوتا ہے تو خلاصہ یہ کہ بیع عینہ سے بچنے کے لیے وہ اپنا معاملہ پہلے پورا کرے گا اور میں اس کے بعد۔

2.     میرا زید سے کل کے لیے  لینے کا وعدہ ہوا 10 تولہ ایک لاکھ روپے فی تولہ کے حساب سے، یعنی اس نے مجھے دینا ہوگا۔ اب ریٹ کا اتار چڑھاؤ جاری تھا اس دوران میں نے زید کے ساتھ دوبارہ دس تولہ اس کو دینے کا وعدہ کیا 99500 روپے فی تولہ کے حساب سے۔  یہاں اگر ہم  یہ وعدے بغیر کیش کے پورا کریں تو یہ زید کے لیے  بیع عینہ کی صورت  بن جائیگی کیونکہ وہ دس تولہ سونا ایک لاکھ فی تولہ کے حساب سے مجھے دے گا اور میں وہی سونا اس کو دوبارہ وعدے کے مطابق 99500 پہ دوں گا۔

اس کے کچھ حل ذہن میں آتے ہیں۔ میں وہ تحریر کر دیتا ہوں۔ آپ انہیں دیکھ لیجیے گا:

1.     پہلا حل یہ ہے کہ میں علی سے دس تولہ سونا قرض لوں اور وعدے کے مطابق وہ زید کو 99500 فی تولہ کے حساب سے فروخت کر دوں پھر زید وہی سونا مجھے ایک لاکھ فی تولہ کے حساب سے وعدے کے مطابق فروخت کر دیں  اور میں وہی سونا واپس لا کر علی کو دے دیتا ہوں اس طرح زید بیع عینہ سے بچ جائیگا۔

2.     دوسرا حل یہ ہے کہ اگر مارکیٹ سے مجھے قرض سونا فراہم نہیں ہورہا تو میں زید کو یوں کہوں کہ تم اپنا وعدہ پورا کرو وہ ایک لاکھ روپے فی تولہ کے حساب سے مجھے سونا دے دیں اور میں وہی سونا لے جا کر علی کے ساتھ صرف کا معاملہ کر لوں کہ یہ دس تولے سونا تم لے لو اور مجھے  اس کے بدلے دس تولہ کوئی اور سونا دے دو یعنی زید کا سونا صرف کے ذریعے علی کے ساتھ تبدیل ہو جائے گا اور علی سے جو سونا مجھے مل جائے وہ لا کر وعدے کے مطابق میں زید کو 99500 پہ فروخت کر دوں اس طرح بھی زید بیع عینہ سے بچ سکتا ہے۔ لیکن اس میں مارکیٹ میں بہت حرج ہوگا اور اس پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔ سونے کے معاملے میں بد اعتمادی کافی زیادہ کی جاتی ہے ۔ علی مجھ سے کہے گا کہ کیا پتہ اس سونے میں کیرٹ کے لحاظ سے کوئی نقص ہو ۔ یہاں لیزر کے ذریعے سونے کو اب points تک میں جانچا جاتا ہے تو علی یہی سوچے گا کہ شاید میرا سونا points/karat کے اعتبار سے کمزور ہو۔  دوسری بات علی کیوں اپنے آپ کو میرے لیے اس مسئلے میں ڈالے گا کہ میرا سونا مجھ سے لے کر ٹیسٹ کے سو روپے دےگا اور پھر اسی معیار کا سونا مجھے دے گا ؟اس کے لیے آسانی اسی میں ہے کہ مجھے انکار کر دے کہ ضرورت کیا ہے مجھے؟ اس میں کوئی فائدہ نہیں۔

3.     تیسرا حل یہ ہے کہ زید کا مجھے دینے کا وعدہ ہو 10 تولہ ایک لاکھ روپے فی تولہ کے حساب سے کل کے لیے  اور میں چاہتا ہوں کہ زید سے سونا جب فراہم ہوگا اسے باہر کسی تیسرے کو دونگا اور پھر اس سے کیش لے کر زید کو دونگا، اب جبکہ ریٹ بھی گر چکا ہے اور مجھے کوئی فائدہ بھی نہیں اس لیے کیوں نہ زید کا معاملہ زید کی دکان پر ہی نمٹا دوں؟ اب ریٹ چونکہ گر چکا ہے لہذا میں اگر ایک لاکھ سے کم ریٹ پر زید سے وعدہ کرونگا تو جب دونوں وعدے پورے ہوں گے اس سے بیع عینہ کی صورت لازم آئے گی۔ جبکہ یہاں مجھے لگ رہا ہے کہ علی سے بھی قرض سونا فراہم نہیں ہو سکے گا تاکہ ان وعدوں کی تکمیل میں بیع عینہ سے بچ سکے۔اب یہاں میں ایک اور طریقہ کرتا ہوں۔ میں کسی تیسرے بندے کو کہتا ہوں کہ جا کر زید کو کسی ریٹ پر دس تولہ دینے کا وعدہ کر لو میں تمہارے ساتھ اسی ریٹ پہ وعدہ کر لونگا۔مثلا  زید نے کل کے لیے مجھے دس تولہ  سونا ایک لاکھ فی تولہ کے حساب سے دینے کا وعدہ کیا ہے، اب ریٹ نیچے آگیا اور مجھے لگ رہا ہے کہ پہلا اور دوسرا حل یہاں کار آمد نہیں تو میں تیسرے حل کی طرف جاتا ہوں اور علی سے کہتا ہوں کہ تم زید  کو دس تولے دینے کا وعدہ کرو جس ریٹ پر تم کرو گے میں اسی پر تم سے کر لونگا ۔اب علی نے زید کے ساتھ 99500 پہ وعدہ کیا دس تولہ دینے کا( یہاں یہ بات یاد رہے کہ زید کو پتہ نہیں ہوگا کہ علی کو میں نے وعدہ کرنے کا کہا ہے بلکہ یہ میری اور علی کی آپس کی بات ہوگی کیونکہ اگر زید کو یہ پتا چل جائے پھر بھی یہ معاملہ ناجائز ہی ہونا چاہئے کہ بیع عینہ سے بچنے کے لیے علی کو بیچ میں لایا جارہا ہے، باقی چیز تو بیع عینہ ہی ہے) بہر حال علی زید سے 99500 پہ وعدہ کرے گا اور میں علی سے 99500 پہ وعدہ کر لونگا۔ اب جب بیع کا وقت آیا تو زید نے  اپنا وعدہ مجھ سے پورا کیا یعنی دس تولہ ایک لاکھ فی تولہ کے حساب سے مجھے فروخت کیا میں نے وہی سونا علی کو وعدے کے مطابق 99500 پہ فروخت کیا اور اس نے  زید کو واپس وہ سونا 99500 پہ فروخت کر دیا  اور جس فریق کوان وعدوں کی تکمیل میں نقصان ہوا یا نفع ہوا، وہ اتنی کرنسی لے دے کر آپس میں حساب صاف کر لیں۔ یعنی اس معاملے میں مجھے زید کو 500 روپیہ فی تولہ کے حساب سے ادا کرنے ہونگے تو  اس طرح سے یہ معاملات بیع عینہ سے  نکل جائیں گے۔

مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق اپنے سوالات مختصراً لکھ رہا ہوں۔ از راہ کرم ان تمام چیزوں کا مکمل تفصیل کے ساتھ آسان فہم جواب عنایت فرمائیں اور ممکن ہو تو ہر شق کا الگ الگ جواب عنایت کیجیے:

1.     مارکیٹوں کی مندرجہ بالا نفسیات و صورتحال کو دیکھتے ہوئے وعدہ بیع کو کیسے لاگو کیا جائے گا؟ بیع اور وعدہ بیع کا معیار کیا ہوگا؟ ایسی مارکیٹ میں اگر فریقین ڈیل کریں تو یہ بات عوام کے لیے   حجت کے درجے میں واضح کریں (کہ وہ مارکیٹ میں دوسرے فریق کے لیے حجت ہو)  کہ کونسی ڈیل بیع شمار ہوگی اور کونسی ڈیل وعدہ بیع تاکہ کاروباری طبقے کے لیے اس میں کوئی اشکال نہ رہے کہ ہم بیع کر رہے ہیں یا وعدہ بیع ؟ نیز اس میں اس بات کے لیے بھی ایک لائین کھینچنی ہوگی کہ بیع و وعدہ بیع کی وضاحت کر کے اگر ہم کسی کے ساتھ وعدہ بیع کریں اور وہ دل ہی دل میں اسے بیع سمجھ رہا ہو تو ہم اس کے نیت کے مکلف نہ ہوں۔ براہ کرم اس تفصیل کو بھی واضح کریں۔

2.     جب کم ریٹ والی مارکیٹ زیادہ ریٹ والی مارکیٹ کے ساتھ وعدہ بیع کرتی ہے تو اس صورت میں چونکہ دو شہروں کے بات ہوتی ہے اب دونوں فریقین کے لیے اپنے وعدے پورے کرنے کی جائز صورتیں کیا ہوں گی ؟

3.     کسی ڈیلر نے اگر گھر سے بیچنے خریدنے کا وعدہ کرنا ہو تو اس کے لیے کیا پابندیاں ہیں کہ معاملہ پھر جائز طریقے سے پورا ہو؟  درج بالا تفصیل کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔

4.     اگر فریقین بیع کریں اور سونے کی فراہمی یا رقم کی فراہمی میں آپریشنل ڈیلے (Operational Delay) ہو تو اس کا حکم کیا ہوگا؟ اس کی صورت یوں ہوتی ہےکہ مثلاً زید نے عمرو کو سونا بیچا ، عمرو ابھی زید کو ادائیگی کے لیے رقم گن رہا ہے یا زید کا وکیل عمرو سے وصولی کے بعد رقم گن رہا ہے تو اتنی دیر میں زید بکر سے سونا خرید لیتا ہے۔ یہ ریٹ کے تیزی سے بدلنے سے بچنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ جیسے ہی رقم زید کے پاس مکمل ہوگی، وہ بکر کو ادائیگی کر دے گا اور سونے پر قبضہ بعد میں ہوگا۔

5.     وعدہ بیع کی پانچویں اور چھٹی بات کے تحت جو یہ بات لکھی ہے کہ ٹریڈرز کے ساتھ اعتماد کی بنیاد پر زیادہ مالیت کے سودے بھی کیے جاتے ہیں یہ سودے تو ناجائز ہے ہی لیکن کیا اعتماد کے بنیاد پر زیادہ سونا لینے دینے کا وعدہ بیع ٹریڈرز کر سکتے ہیں؟

6.     مارکیٹ میں موجود دو طبقات، جن کا ذکر اوپر موجود ہے، ان میں پہلا طبقہ تو مکمل غلط کر رہا ہے  جبکہ دوسرا طبقہ غلط کو صحیح سمجھ کر کر رہا ہے۔ اس دوسرے طبقے کے جو معاملات اوپر درج ہیں اس کی جائز صورت وعدہ بیع سے کیسے ممکن ہوگی؟ اس کی وضاحت کر دیں۔ نیز دوسرے طبقے میں قبضے کی ایک صورت جس میں زید مجھے وکیل بنا کے علی کے پاس بھیجتا ہے اور میں جا کر علی سے زید کا سونا لا کر زید کو دے دیتا ہوں پھر زید واپس مجھے وعدے کے مطابق فروخت کر  دیتا ہے۔ اس صورت میں ہم نے لکھا ہے کہ زید و علی کا معاملہ بھی ممکن ہے کہ ناجائز ہوا ہو، جس طرح مارکیٹوں میں ہو رہا ہے۔ اب  وہ ان کا اپنا معاملہ ہے اس کا میں مکلف نہیں لیکن میرا اور زید کا اگر وعدہ بیع ہو اور پھر اسے پورا کرنے کے لیے وہ مجھے علی کا کہے اور میں وکیل بن کے علی سے سونا لے آؤں  تو یہاں میرا وکیل بننا جائز ہے؟ اب کیا پتہ زید نے اس کے ساتھ کس قسم کی بات کی ہو، شاید وہ سونا علی پر قرض ہو یا زید نے اس سونے کی ڈیل کی ہو لیکن وہ جائز نہ ہو یا زید نے علی سے بھی وعدہ کیا ہو؟ اب ان تینوں صورتوں میں میں زید کا وکیل بن کے زید کے لیے علی سے سونا لا کر اسے دے دوں اور وہ وعدےکے مطابق مجھے فروخت کر دے تو یہ معاملہ درست ہوگا یا میں مذکورہ تینوں صورتوں میں وکیل نہیں بن سکتا ؟

7.     بعض اوقات یہاں حوالہ در حوالہ کا سلسلہ بن جاتا ہے۔ مثلاً زید نے حامد کو سونا بیچا، حامد نے محمود کو، محمود نے بکر کو اور بکر نے علی کو۔ اب جب قبضے کا وقت آتا ہے تو علی بکر کے پاس جاتا ہے۔ وہ اسے محمود کے پاس  بھیج دیتا ہے، محمود آگے حامد کے پاس اور حامد زید کے پاس بھیج دیتا ہے جس سے علی سونا اٹھا لیتا ہے۔ درمیان والے اپنا اپنا فرق (Difference) بطور نفع کے ایک دوسرے سے لے لیتے ہیں۔ کیا اس کی جائز صورت وعدہ بیع میں ممکن ہے؟ اور اگر سب کے لیے ممکن نہیں تو علی اور بکر کا سودا وعدہ بیع کے طور پر جائز ہے؟

8.     اوپر کے سوال والی صورت میں ہم نے تفصیل کی ایک صورت لکھی ہے کہ میں زید کو اس بات کا پابند بناؤں کہ باہر لوگوں سے وہ جیسے بھی معاملات کریں لیکن جب میرا اس سے لینے کا  وعدہ ہو تو میں وعدہ پورا کرتے وقت سونا اسی سے لونگا۔ مجھے نہ حوالے دے نا وکیل بنائے۔ کیا ایسا کرنے سے ہم جب وعدہ پورا کر لیں تو معاملہ درست ہو جائے گا؟

9.     حقیقی نقصان تب ہوتا ہے جب ایک فریق نے دوسرے فریق کے وعدے پر بھروسہ کرتے ہوئے کوئی تیسرا معاہدہ کر لیا ہو۔ بعض اوقات یہ بات اختیار میں آ جاتی ہے۔ مثلاً  ڈیلر زید دن میں کئی سودے کرتا ہے۔ اس سے عمر، بکر، اور حامد تینوں نے سونا دینے کا وعدہ کیا اور اس نے آگے محمود، شاہد، کریم اور دوسرے لوگوں سے کئی وعدے کیے۔ اس کے پاس اپنا سونا بھی رکھا تھا اور اسے  عمر، بکر، اور حامد سے سونا ملنے کی بھی توقع تھی۔ آگے اس نے جن سے وعدے کیے تھے ان کے ریٹ مختلف تھے۔

اب عمر سونا دینے سے انکاری ہو گیاجس کی وجہ سے زید نے کچھ سونا فوری طور پر بازار سے مہنگا خرید کر آگے دے دیا۔ زید کے تو آگے کئی معاہدے ہیں۔ وہ کس معاہدے کا نقصان عمر پر ڈالے گا؟

10.مارکیٹ میں بعض لوگوں سے جھوٹ اور غلط بیانی کی بھی امید ہوگی کہ وہ حقیقی نقصان غلط بتائیں گے۔ مثلاً انہوں نے سونا خریدا نہیں ہوگا یا سستا خریدا ہوگا اور وہ مہنگا بتائیں گے۔ اس لیے وعدہ خلافی کی صورت میں مارکیٹ کے ریٹ کے مطابق رقم لے لی جاتی ہےاور ریٹ سب کو معلوم ہوتا ہے تو کوئی جھگڑا نہیں ہوتا۔ اس لیے اگر حقیقی نقصان کے علاوہ کوئی متبادل ہو تو وہ بھی بتائیے۔

11.            اوپر مذکور بیع عینہ کی صورتیں بھی مارکیٹ میں پیدا ہوں گی جن کے کچھ حل بھی لکھے گئے ہیں۔ ان کے بارے میں رہنمائی کیجیے۔

12.اگر فریقین کا وعدہ ہوا ہو اور اس دن وعدہ پورا کرنا ممکن نہ ہو کسی بھی وجہ سے تو کیا دونوں فریقین آپس کی رضامندی سے وعدوں کو کسی اور تاریخ پہ شفٹ کر سکتے ہیں؟ اگر ہاں تو اس کے لیے نیا وعدہ کرنا ہوگا یا کوئی اور طریقہ ہے؟ براہ کرم یہ بھی واضح کریں۔

13.وعدہ بیع سے کبھی کبھی ایسا بھی ہوگا کہ فریقین کا وعدہ ہوا ہوگا لیکن دونوں اپنا وعدہ کینسل کر لیتے ہیں آپس کی رضامندی سے، کیا ایسا کرنے سے کوئی فریق گنہگا ر تو نہیں ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال کے جواب سے قبل بطور تمہید کچھ بنیادی چیزوں کی تفصیل سمجھ لینی چاہیے:

بیع اور اس کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ:

شریعت مطہرہ میں بیع (خريد و فروخت) اس عقد کو کہتے ہیں جس میں کوئی شخص اپنےایسے مال کا لین دین دوسرے شخص کے مال سے کرے جس کی لوگوں میں رغبت ہوتی ہو اوریہ لین دین شریعت کے بیان کردہ مخصوص طریقوں سے ہو۔ بیع کسی بھی زبان کے ایسے الفاظ سے ہو جاتی ہے جو عرف میں خرید و فروخت پر دلالت کرتے ہوں۔ چنانچہ سوال میں مذکور "تیرا ہوا، میرا ہوا" کے الفاظ اگر صرافہ مارکیٹ کے عرف میں بیع کے لیے استعمال ہوتے ہوں تو ان سے بیع منعقد ہو جائے گی۔

کرنسی کی سونے سے بیع کا حکم:

کرنسی نوٹ کے بدلے سونا یا چاندی خریدنے کے لیے شرط یہ ہے کہ دونوں میں سے کسی ایک پر مجلس میں ہی قبضہ ہو جائے۔ مثلاً اگر زید نے بکر سے 10 تولہ سونا دس لاکھ روپے میں خریدا ہے تو اسی مجلس میں یا تو زید دس لاکھ روپے بکر کے حوالے کر دے اور یا بکر سونا زید کے حوالے کر دے، تو یہ شرعاً درست ہے۔ اگر دونوں میں سے کسی پر بھی مجلس میں قبضہ نہیں ہوا تو یہ درست نہیں۔

مجلس سے مراد وہ گفتگو ہے جس میں لین دین کی بات ہو رہی ہو۔ چنانچہ اگر فریقین فون پر آپس میں خریداری کا معاملہ کر رہے ہیں تو یہ بھی مجلس شمار ہوگی۔

وعدہ بیع:

وعدہ بیع کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کسی خاص وقت میں کوئی چیز خریدنے کا پختہ ارادہ ظاہر کرے۔ اس میں خریدار نہ تو اس چیز کا فوراً مالک ہو جاتا ہے اور نہ ہی اس پر بیچنے والے کی کوئی رقم اس چیز کے ثمن کے طور پر لازم ہوتی ہے۔ جس چیز کے خریدنے کا وعدہ ہوتا ہے وہ بیچنے والےکی ملکیت میں ہی رہتی ہے۔ پھر جب وہ وقت آتا ہے، جس پر  خریداری کا وعدہ تھا، تو خریدار اور بیچنے والا مستقل طور پر آپس میں خرید و فروخت کا   معاملہ کر لیتے ہیں جس سے خریدار بیچی جانے والی چیز کا اور بیچنے والا اس کے ثمن (خرید و فروخت میں طے شدہ رقم) کا مالک ہو جاتا ہے۔ نیز جو الفاظ بھی کسی مارکیٹ کے عرف میں یا کسی زبان بولنے والوں کے یہاں پختہ ارادے پر دلالت کرتے ہوں ان سے فریقین کا آپس میں وعدہ ثابت ہوتا ہے۔

ضرر حقیقی:

ضرر حقیقی وہ نقصان ہے جو کسی معاملے میں کسی شخص کو ہو۔ اگر کوئی شخص کسی کے وعدے کی بنا پر ضرر حقیقی کا شکار ہو تو وہ یہ ضرر وعدہ کرنے والے سے وصول کر سکتا ہے۔ مثلاً زید نے بکر سے وعدہ کیا کہ کہ وہ اس سے فلاں دن اتنا  سونا فلاں رقم کے بدلے خریدے گا۔ اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے بکر نے سونا لے کر رکھ دیا لیکن زید نے نہیں خریدا اور بکر کو بازار میں سستا بیچنا پڑا تو یہ رقم بکر زید سے وصول کر سکتا ہے۔

التزام تبرع:

التزام تبرع کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی صورت میں اپنے اوپر کچھ صدقہ کرنا لازم کر دے۔ مثلاً زید کہے کہ اگر میں نے عمرو کو اس کی رقم دس تاریخ تک نہیں دی تو میں دو ہزار روپے کسی مستحق کو بطور صدقہ دوں گا۔  یہ رقم ادا کرنا اس پر شرعاً لازم ہوگا۔

اس تمہید کے بعد سوالات میں مذکور صورتوں کی تفصیل سوالات کے مطابق نمبر وار درج ہے:

سوال نمبر 1:

·       اگر دو افراد کی کوئی ڈیل "تیرا ہوا"، "میرا ہوا"، "میرے لیے لکھ دو"، "ستا شوا"، "زما شوا"، "تہاڈا ہوا" یا ان جیسے کسی بھی زبان کے ایسے الفاظ سے ہو، جن کے بعد مارکیٹ کے عرف کے مطابق فریقین ایک دوسرے کا مال اپنا سمجھتے ہوں (یعنی خریدار یہ سمجھتا ہو کہ اتنا اتنا سونا میرا ہو گیا اور بیچنے والا یہ سمجھتا ہو کہ میرا فلاں رقم کا خریدار پر دین (قرض) لازم ہو گیا) تو یہ بیع  یعنی خرید و فروخت سمجھی جائے گی۔

·       اگر دو افراد کی بات چیت  ایسے الفاظ سے ہو جو عرف میں پختہ ارادے پر دلالت کرتے ہوں (مثلاً میں کل صبح اتنا سونا دوں گا) تو یہ خرید و فروخت نہیں بلکہ خرید و فروخت کا وعدہ ہوگا اور وقت آنے پر باقاعدہ خرید و فروخت کرنی ہوگی۔

·       چونکہ "تیرا ہوا"، "میرا ہوا" اور اس کے متبادل الفاظ وعدہ بننے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اس لیے اگر دونوں افراد آپس میں یہ طے کر لیں کہ یہ بیع نہیں بلکہ وعدہ ہے تو یہ شرعاً وعدہ ہی سمجھا جائے گا۔

·       کوئی شخص دوسرے کے ساتھ یہ بھی طے کر سکتا ہے کہ میں جب بھی تم سے ان الفاظ میں معاملہ کروں تو وہ معاملہ وعدے کا ہوگا۔

·       وعدہ بیع کرنے کی صورت میں نہ تو بیچنے کا وعدہ کرنے والے کے پاس موجود سونا، خریدنے کا وعدہ کرنے والے کی ملکیت ہوگا اور نہ ہی بیچنے کا وعدہ کرنے والے کا خریدنے کا وعدہ کرنے والے پر اس وعدے کی وجہ سے کوئی قرض لازم ہوگا۔

·       اگر دو افراد یہ طے کر لیں کہ ان الفاظ سے ہم وعدہ کر رہے ہیں، بیع نہیں کر رہے لیکن ان میں سے کوئی ایک فریق دل میں اسے بیع ہی سمجھ رہا ہو تو اس کی وجہ سے دوسرے فریق کو کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

سوال نمبر2:

اگر دو تاجر الگ الگ مارکیٹ میں ہیں تو ایک دوسرے سے فون، میسج، ای میل یا واٹس ایپ پر وعدہ بیع کر سکتے ہیں۔ پھر جب بیع کا وقت آئے گا تو تین صورتیں شرعاً ممکن ہیں:

1.     دونوں ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں اور باقاعدہ لین دین کر لیں۔

2.     دونوں بذریعہ فون یا کسی اور طریقے سے بات کر کے بیع کر لیں اور خریدار کی جانب سے کوئی شخص بیچنے والے سے سونے پر قبضہ کر لے۔

3.     دونوں بذریعہ فون یا کسی اور طریقے سے بات کر کے بیع کر لیں اور خریدار بیچنے والے کے اکاؤنٹ میں پیسے منتقل کر دے  یا اسے یا اس کی جانب سے کسی متعین کردہ شخص کو پیسے پہنچا دے۔

سوال نمبر 3:

ڈیلر نے چاہے گھر سے بیچنا اور خریدنا ہو یا دوکان سے، حکم ایک ہی ہوگا اور جس مجلس میں خریداری کا معاملہ ہوگا اسی میں سونے یا رقم میں سے کسی ایک پر قبضہ ضروری ہوگا۔

سوال نمبر 4:

اگر خریدار کے پاس فوری طور پر رقم نہ ہو اور نہ ہی بیچنے والے نے سونے کا قبضہ فوری دینا ہو تو اس عقد کے دو جائز طریقے ممکن ہیں:

1.     دونوں آپس میں وعدہ کر لیں اور جب خریدار کے پاس رقم یا بیچنے والے کے پاس سونا آ جائے تو باقاعدہ بیع کر لیں۔

2.     اگر رقم مجلس ختم ہونے سے پہلے ہی آنے کا امکان ہو تو اتنی دیر انتظار کر لیا جائے اور رقم اسی مجلس میں دے دی جائے، بعد ازاں سونے پر قبضہ کر لیا جائے۔ اسی طرح اگر سونے کی فراہمی میں ڈیلے ہو اور مجلس میں آنے کا امکان ہو تو انتظار کر لیا جائے اور سونا آنے کے بعد مجلس میں دے دیا جائے اور رقم کی ادائیگی بعد میں کر دی جائے۔

سوال نمبر 5:

خرید و فروخت کے عقد کے منعقد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بوقت عقد بیچی جانے والی چیز بیچنے والے کی ملکیت میں ہو۔ یہاں چونکہ بوقت عقد سونا بیچنے والے کی ملکیت میں نہیں ہوتا اس لیے بیع درست نہیں ہے۔ البتہ بیچنے والا شخص خریدار سے بیچنے کا وعدہ کر سکتا ہے کہ فلاں دن میں تمہیں اتنا اتنا سونا دوں گا۔ جب وعدہ پورا کرنے کا وقت ہو تو سونا ادا کرنا اور خریدار کا اس پر قبضہ کرنا ضروری ہے، اس کے بغیر یہ معاملہ درست نہیں ہوگا۔

اگر بیع کا ثمن (وہ قیمت جو معاملے میں طے کی گئی ہو) زر (رائج کرنسی) کی شکل میں ہو تو اس  میں چونکہ عقد کے وقت ملک میں ہونا لازم نہیں ہے اس لیے اگر خریدار نے اپنے پاس موجود رقم سے زیادہ کا سونا خرید لیا اور سونے پر مجلس میں ہی قبضہ بھی ہو گیا تو یہ درست ہےاور یہ ثمن خریدار پر لازم ہوگا۔

سوال نمبر 6:

کرنسی نوٹ کے بدلے سونا یا چاندی خریدنے کے لیے شرط یہ ہے کہ دونوں میں سے کسی ایک پر مجلس میں ہی قبضہ ہو جائے۔  لہذا سوال میں مذکور دوسرے طبقے کا طریقہ کار شرعاً درست نہیں ہے۔ اس کا درست طریقہ یہ ممکن ہے کہ اولاً دونوں فریق فون پر مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق وعدہ بیع کر لیں اور بعد میں جب بیع کا وقت آئے تو بیع کے ساتھ دونوں یا ایک عوض پر قبضہ کر لیں۔

البتہ سوال میں مذکور وکالت کی صورت درست ہے۔ یعنی جب بیع کا وقت آیا اور آپ زید کے پاس گئے اور اس نے کہا کہ علی سے میرا سونا لا دو تو آپ کے لیے علی سے زید کے وکیل کے طور پر سونا لینا جائز ہے۔  ان دونوں کا آپس میں جو بھی معاملہ ہو، آپ پر اس کی تحقیق لازم نہیں ہے۔ علی سے سونا لینے کے بعد دو طریقے ممکن ہیں:

1.     آپ سونا زید  کے پاس لے آئیں اور اس کے حوالے کر دیں۔ اس کے بعد آپ دونوں باقاعدہ خرید و فروخت کا عقد کریں اور آپ زید سے سونا اپنے قبضے میں کر لیں۔

2.     علی سے سونا وصول کرنے کے بعد آپ زید کو فون کر کے کہیں کہ میں نے علی سے آپ کا سونا لے لیا ہے۔ اس کے بعد فون پر ہی دونوں ایجاب و قبول کر لیں تو یہ بھی درست ہے۔

سوال نمبر 7:

اس کا درست طریقہ یہ ہے کہ زید حامد سے سونا دینے کا وعدہ کرے اور حامد آگے محمود سے  اور محمود آگے بکر سے  وعدہ ہی کرے۔ پھر جب وعدے میں طے شدہ وقت آئے تو حامد علی کو زید سے سونا لینے کا وکیل بنائے۔ جب علی حامد کی جانب سے خریداری کر کے اس سونے پر قبضہ کر لے اور حامد کو اطلاع دے دے تو حامد اسے یہ سونا محمود کو دینے کا کہہ دے۔ علی محمود سے جا کے باقاعدہ بیچنے کا معاملہ کرے اور سونا اس کے قبضے میں دے دے۔ سونا قبضے میں لینے کے بعد محمود وہ سونا علی کو بکر کو بیچنے اور اور پہنچانے کے لیے بطور وکیل دے دے۔ علی وہ سونا بکر کے پاس لے کر جائے اور باقاعدہ بیچنے کا معاملہ کر کے اس کے حوالے کر دے۔ اب علی بکر سے یہ سونا خرید سکتا ہے۔

اگر یہ سب لوگ اس طرح معاملہ کرنے پر راضی نہ ہوں تو علی سونا ان کے کہنے کے مطابق بکر کے پاس لے آئے اور سونا بکر کے قبضے میں دے کر اس سے باقاعدہ خرید لے  تو یہ علی کے لیے جائز ہوگا۔

سوال نمبر 8:

سوال نمبر 6 کے جواب میں مذکور تفصیل کے مطابق وکالت کا معاملہ بھی درست ہے اور اگر آپ زید کو یہ کہیں کہ آپ سونا اسی سے لیں گے اور اس کے وکیل کے طور پر کسی سے لے کر نہیں آئیں گے تو یہ بھی شرعاً درست ہے۔

سوال نمبر 9:

سوال میں مذکور صورت میں زید کا حقیقی نقصان وہ فرق ہے جس پر اس نے بازار سے مہنگا سونا خریدا ہے۔ مثلاً زید کے پاس سو تولے سونا اپنا تھا اور اس نے عمر سے بیس تولے، بکر سے پچیس تولے اور حامد سے تیس تولے سونا لینا تھا۔ زید نے آگے 175 تولے سونا دینا تھا۔ اب جب عمر نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے سونا دینے سے انکار کیا تو زید نے بیس تولے سونا بازار سے خریدا تاکہ آگے ادائیگی کر سکے۔ عمر کا معاہدہ زید کے ساتھ ایک لاکھ روپے فی تولہ کا تھا اور بازار سے اسے ایک لاکھ دس ہزار روپے فی تولہ سونا ملا۔ دونوں رقموں کے درمیان فرق دس ہزار روپے فی تولہ کا ہے اور زید یہ فرق عمر سے لے سکتا ہے۔

سوال نمبر10:

چونکہ مارکیٹ میں یہ معاملات  کافی  زیادہ ہوتے ہیں اور بعض معاملات میں وعدہ خلافی سے معاملہ پیچیدہ ہو سکتا ہے اس لیے فریقین التزام تبرع کا طریقہ اختیار کر سکتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہر فریق کہے گا کہ اگر میں نے وعدہ پورا نہیں کیا تو اتنی اتنی رقم فلاں مستحق کو یا فلاں فلاحی ادارے کو بطور صدقہ دوں گا۔ پھر اگر وہ بلا عذر وعدہ پورا نہ کرے تو اس پر یہ رقم صدقہ دینا لازم ہوگی۔ البتہ اس کے لیے یہ شرط ہے کہ یہ رقم دوسرا فریق استعمال نہیں کر سکتا بلکہ یہ صدقہ ہی ہوگی اور مستحقین تک پہنچانی ہوگی۔ اسے حیلہ ربا سے بچانے کے لیے مناسب یہ ہے کہ وعدہ پورا نہ کرنے والا فریق یہ رقم متعین ادارے میں دے کر وہاں کی رسید دوسرے فریق کو دے دے۔  اس سے فریق ثانی کا نقصان تو پورا نہیں ہوگا لیکن فریق اول پر وعدہ پورا کرنے کے لیے دباؤ رہے گا۔

سوال 11:

ایک ہی شخص سے سونا لینے اور دینے کے دو الگ الگ وعدے کرنا شرعاً درست ہیں۔ جب بیع کا موقع آئے گا تو اس کی مختلف صورتیں ہوں گی:

1.     دونوں بیع نقد ہوں اور پیسوں کی ادائیگی ہر بیع کے بعد فوری کی جائے۔ مثلاً زید نے بکر کو 10 تولے سونا بیچا اور بکر نے پیسے دے کر قبضہ لے لیا۔ پھر بکر نے وہی دس تولے سونا زید کو بیچ دیا اور قبضہ دے کر پیسے لے لیے۔ اس میں دوسری بیع پہلی کے برابر پیسوں پر ہو یا کم ہو یا زیادہ، تمام صورتیں شرعاً درست ہیں۔

2.     دونوں بیع نقد ہوں لیکن پیسوں کی ادائیگی فوراً نہ کی جائے۔ مثلاً زید نے بکر کو دس تولے سونا بیچا اور بکر نے اس سونے پر قبضہ بھی کر لیا لیکن پیسے ادا نہیں کیے۔ پھر بکر نے زید کو وہی دس تولے سونا واپس بیچ دیا۔ اس صورت میں اگر دوسری بیع کی رقم پہلی کے برابر یا اس سے زیادہ ہے تو یہ شرعاً درست ہے اور اگر پہلی بیع سے کم ہے تو یہ شرعاً جائز نہیں۔

3.     پہلی بیع نقد ہو اور دوسری ادھار ہو۔ مثلاً زید نے بکر  کو دس تولے سونا نقد بیچا اور بکر نے قبضہ کر لیا لیکن پیسوں کی  ادائیگی نہیں کی۔ پھر بکر نے وہ سونا زید کو دو مہینے کے ادھار پر بیچ دیا۔ اس صورت میں دوسری بیع اگر پہلی سے کم قیمت یا برابر قیمت پر ہوئی ہے تو یہ جائز نہیں ہے اور اگر دوسری بیع زیادہ قیمت پر ہوئی ہے تو یہ جائز ہے۔

4.     پہلی بیع ادھار ہو اور دوسری نقد ہو۔ یہ بیع عینہ کی صورت ہے اور یہ جائز نہیں ہے۔

یاد رہے کہ مذکورہ بالا تمام صورتوں میں جائز ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ دونوں بیع الگ الگ ہوں اور ایک میں دوسری کی شرط نہ لگائی جائے۔

وعدوں کے پورا کرنے میں ترتیب ضروری نہیں ہے لہذا اگر ممکن ہو تو کم رقم والی بیع پہلے کی جائے اور زیادہ رقم والی بیع بعد میں کی جائے۔لیکن اگر دوسری بیع مارکیٹ کم ہونے کی وجہ سے پہلی سے کم رقم پر کرنی ہے تو اس کی تین جائز صورتیں ہیں:

1.     دونوں میں ثمن پر فوری قبضہ کر لیا جائے جیسا کہ اوپر پہلی صورت میں ذکر کیا گیا ہے۔

2.     بکر زید سے خریدنے کے بعد کسی تیسرے فرد کو کم ریٹ پر فروخت کر دے۔ پھر وہ تیسرا شخص چاہے تو زید کو بھی فروخت کر سکتا ہے اور کہیں اور بھی بیچ سکتا ہے۔

3.     بکر کسی سے سونا قرض لے کر پہلے زید کو کم رقم میں بیچ دے  اور زید کے قبضہ کرنے کے بعد اس سے زیادہ رقم میں خرید لے۔

سوال نمبر12:

فریقین وعدہ ختم کر کے نئے سرے سے وعدہ کر سکتے ہیں۔

سوال نمبر 13:

کسی عذر کی وجہ سے باہمی رضامندی سے وعدہ پورا نہ کرنے کی صورت میں کوئی گنہگار نہیں ہوگا۔

حوالہ جات
وشرعا: (مبادلة شيء مرغوب فيه بمثله) خرج غير المرغوب كتراب وميتة ودم على (وجه) مفيد (مخصوص) أي بإيجاب أو تعاط۔۔۔.
(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 4/503، ط: دار الفكر)
 
و بالجملة: فلا يشترط أن يكون الإيجاب أو القبول بلفظ "البيع"، و إنما ينعقد البيع بكل لفظ ينبئ عن ذلك عرفاً۔۔۔.
(فقه البيوع على المذاهب الأربعة، 1/30، ط: مكتبة معارف القرآن)
 
أما المواعدة، فلا تنشئ دينا على أحد من الطرفين، فلا تحدث بها هذه النتائج. فإذا تواعدا على بيع الشيء في تاريخ لاحق، لم يكن الثمن دينا في ذمة الواعد بالشراء، فلا تسقط عنه الزكاة بمقدار الثمن، و لم يكن المبيع دينا في ذمة الواعد بالبيع۔۔۔۔.
(فقه البيوع على المذاهب الأربعة، 1/94، ط: مكتبة معارف القرآن)
 
لا يجوز أن يحمل المتخلف عن الوعد تعويضا إلا بمقدار الخسارة الفعلية التي أصيب بها الطرف الآخر، مثل أن يضطر البائع إلى بيع المبيع بأقل من سعر تكلفته.
(فقه البيوع  على المذاهب الاربعة، 1/109، ط: مكتبة معارف القرآن)
 
و لكن قد تظهر هناك حالات يمكن أن تجعل المواعيد فيها لازمة في القضاء، لأن الإخلاف فيها يؤدي إلى ضرر بين للموعود له. مثلا إن وعد أحد بشراء بضاعة۔۔۔ فإن أمثال هذه الحالات هي التي قال فيها الفقهاء الحنفية: "و قد تجعل المواعيد لازمة لحاجة الناس" كما أسلفنا عن رد المحتار و غيره.
(فقه البيوع  على المذاهب الاربعة، 1/90، ط: مكتبة معارف القرآن)
 
و كذلك يجوز البيع الثاني باتفاق الفقهاء إن كان بمثل الثمن الأول أو بأكثر منه، لانتفاء كونه وسيلة إلى الربا. و إنما الممنوع البيع بأقل، أو بمثل قيمته بزيادة الأجل۔۔۔.
(فقه البيوع  على المذاهب الاربعة، 1/536، ط: مكتبة معارف القرآن)
 
ولو باع المشتري المشترى من رجل، ثم إن البائع الأول اشتراه من المشتري الثاني بأقل مما باع جاز.
(المحيط البرهاني، 6/387، ط: دار الكتب العلمية)
 
يجب أن يعلم أن شراء ما باع الرجل بنفسه أو بيع له بأن باع وكيله بأقل مما باع ممن باع أو ممن قام مقام البائع كالوارث قبل نقد الثمن لا يجوز إذا كانت السلعة على حالها لم ينتقض بعيب، وكذلك إن بقي عليه شيء من ثمنه وإن قل.
(المحيط البرهاني، 6/385، ط: دار الكتب العلمية)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

تاریخ: 29/ صفر المظفر 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب