021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لفظ آزاد سے طلاق کا حکم
70281طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

خلاصہ سوال:    میرے میاں کو کچھ بیماری ہے جس کی وجہ سے ہماری ازدواجی زندگی بالکل ختم ہے۔ کئی مرتبہ جھگڑا ہوا تو میاں صاحب نے کہا کہ تم میری طرف سے آزاد ہو، جہاں چاہو جا سکتی ہو۔

دو سال ہو گئے ہیں یہ لفظ کہتے ہوئے۔ اس چیز کے گواہ میرے بچے بھی ہیں۔  مہربانی کرکے مجھے اس مسئلے کا حل بتائیے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

لفظ"آزاد ہو" کی نسبت جب نکاح کی جانب نہ ہو تو یہ طلاق کے کنائی الفاظ میں سے ہے۔ نیت یا قرینہ موجود ہونے کی صورت میں اس جملے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ سوال میں مذکور صورت کے مطابق لڑائی کے دوران شوہر  نے کہا کہ "تم میری طرف سے آزاد ہو۔" یہ جملہ چونکہ شوہر نے بیوی کے سوال کے جواب میں نہیں کہا بلکہ غصے میں کہا ہے تو دیکھا جائے گا کہ یہاں گفتگو کیا ہو رہی تھی؟

 اگر گفتگو ایسی تھی جس میں یہ لفظ برا بھلا کہنے کے لیے بھی استعمال ہو سکتا تھا اور طلاق کے لیے بھی، تو شوہر سے پوچھا جائے گا کہ اس کی کیا نیت تھی؟ اگر اس کی نیت طلاق کی تھی تو ایک طلاق واقع ہو گئی۔ پھر اگر دوبارہ یا سہ بارہ یہی جملہ کہا تو مزید طلاق نہیں ہوئی۔ اگر آپ کی تین ماہواریاں گزر چکی ہیں تو آپ کہیں بھی نکاح کر سکتی ہیں اور اگر سابقہ شوہر کے ساتھ رہنا چاہیں تو نئے سرے سے نکاح کر کے رہ سکتی ہیں۔ اور اگر شوہر قسم کھا کر یہ کہتا ہے کہ اس کی نیت طلاق کی نہیں تھی تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور پچھلا نکاح باقی ہے۔

اگر گفتگو ایسی نہیں تھی جس میں یہ لفظ برا بھلا کہنے کے لیے استعمال ہوتا تو ایک طلاق واقع ہو گئی۔ پھر اگر دوبارہ یا سہ بارہ یہی جملہ کہا تو مزید طلاق نہیں ہوئی۔ اگر آپ کی تین ماہواریاں گزر چکی ہیں تو آپ کہیں بھی نکاح کر سکتی ہیں اور اگر سابقہ شوہر کے ساتھ رہنا چاہیں تو نئے سرے سے نکاح کر کے رہ سکتی ہیں۔

اگر یہ یاد نہ ہو کہ گفتگو کس قسم کی تھی تو احتیاطاً تجدید نکاح کر لیں۔

حوالہ جات
الحالات ثلاث: رضا وغضب ومذاكرة والكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب، أو لا ولا (فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردا، ونحو خلية برية حرام بائن) ومرادفها كبتة بتلة (يصلح سبا، ونحو اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة، أنت حرة، اختاري أمرك بيدك سرحتك، فارقتك لا يحتمل السب والرد، ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله.
(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 3/300، ط: دار الفكر)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

تاریخ: 29/ صفر المظفر 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب