021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اجارہ کی صورت میں عشر کس کے ذمہ ہے؟
70494کھیتی باڑی اور بٹائی کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

اجارہ پر دی گئی زمین میں عشر کس پر ہے ؟ امام صاحب سے موجر پر اور صاحبین سے مستاجر پر عشر ہونا منقول ہے جبکہ صاحب خلاصۃ الفتاوی نے دونوں پر وجوب کا قول فرمایا ہے،جبکہ علامہ شامی رحمہ اللہ تعالی نے محاکمہ فرمایا ہے کہ اگر کرایہ (کم از کم )اجرت مثل تک ہو توعشر موجر پر ہے اور اگر اجر مثل سے بھی کم کرایہ ہو تو مساجر پر عشر ہے، لیکن علامہ شامی بھی اس مسئلہ میں تنہا ہیں ،لہذا اس اختلاف کے پیش نظر راجح قول کی تحقیق اور نشاندہی مطلوب ہے؟

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس مسئلہ میں  علامہ حصکفی اورعلامہ شامی رحمہما اللہ تعالی کی تصریح کے مطابق عمومی رجحان (اجرت مثل سےکرایہ کم ہونے)کے پیش نظرفتوی صاحبین کے قول پر ہے،البتہ اگر کہیں موجر کرایہ اجرت مثل یا اس سےزیادہ لیتا ہو تو ایسی صورت میں علامہ شامی کے محاکمہ کےتناظر میں عشر قول امام صاحب رحمہ اللہ کے مطابق موجر پر ہوگا۔ا(حسن الفتاوی:ج۴،ص۳۴۷ وفتاوی مفتی محمود:ج۳،ص۲۵۹،ج۱۱،ص۷۲)

اور اگر زمین  مزارعت پر دی ہو یعنی مزارع کے ساتھ زمیندار بھی پیداوار میں شریک ہواور تخم کاشتکار کا ہو تو ایسی صورت میں ہر ایک اپنے حصہ کا عشر ادا کرے گا۔اور اگر تخم زمیندار کا ہو تو پورا عشر زمیندار پر ہوگا۔ 

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 334)
والعشر على المؤجر كخراج موظف وقالا على المستأجر كمستعير مسلم: وفي الحاوي وبقولهما نأخذوفي المزارعة إن كان البذر من رب الأرض فعليه، ولو من العامل فعليهما بالحصة
(قوله: وفي الحاوي) أي القدسي ح (قوله وبقولهما نأخذ) قلت: لكن أفتى بقول الإمام جماعة من المتأخرين كالخير الرملي في فتاواه وكذا تلميذ الشارح الشيخ إسماعيل الحائك مفتي دمشق وقال حتى تفسد الإجارة باشتراط خراجها أو عشرها على المستأجر كما في الأشباه، وكذا حامد أفندي العمادي وقال في فتاواه قلت: عبارة الحاوي القدسي لا تعارض عبارة غيره فإن قاضي خان من أهل الترجيح فإن من عادته تقديم الأظهر والأشهر وقد قدم قول الإمام فكان هو المعتمد وأفتى به غير واحد منهم زكريا أفندي شيخ الإسلام وعطاء الله أفندي شيخ الإسلام، وقد اقتصر عليه في الإسعاف والخصاف. اهـ.
قلت: لكن في زماننا عامة الأوقاف من القرى والمزارع لرضا المستأجر بتحمل غراماتها ومؤنها يستأجرها بدون أجر المثل بحيث لا تفي الأجرة، ولا أضعافها بالعشر أو خراج المقاسمة، فلا ينبغي العدول عن الإفتاء بقولهما في ذلك؛ لأنهم في زماننا يقدرون أجرة المثل بناء على أن الأجرة سالمة لجهة الوقف ولا شيء عليه من عشر وغيره أما لو اعتبر دفع العشر من جهة الوقف وأن المستأجر ليس عليه سوى الأجرة فإن أجرة المثل تزيد أضعافا كثيرة كما لا يخفى فإن أمكن أخذ الأجرة كاملة يفتى بقول الإمام وإلا فبقولهما لما يلزم عليه من الضرر الواضح الذي لا يقول به أحد والله تعالى أعلم.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۰ ربیع الاول ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب