021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اولاد کو زمین ھبہ کرنے کے بعد رجوع کا حکم
70329ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ واپس کرنے کابیان

سوال

عبدالاحد نے شادی کی جس سے ایک بیٹا محمد حنیف اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔پھر پہلی بیوی کی وفات  کے بعد عبدالاحد نے دوسری شادی کی جس سے ایک بیٹا محمد شفیع اور پانچ بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ عبدالاحد نے اپنی کل زمین  اپنے دو بیٹوں محمد حنیف اور محمد شفیع کے درمیان تقسیم کردی۔ اپنے بڑے بیٹے محمد حنیف کے مطالبے پر  ان کو حصہ دے کر علیحدہ کردیا اور خود اپنے چھوٹے بیٹے محمد شفیع کے سات رہنے لگے۔ اپنی زمین کا قبضہ وتصرف کامل طور پر بیٹوں کے حوالے کردیا۔

پھر تقریباً 12 سال بعد عبدالاحد کے گھر تیسرے بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کا نام عبدالصمد ہے۔ ان کی پیدائش کے بعد عبدالاحد نے اپنے بڑے بیٹے محمد حنیف سے کہا کہ جائیداد کی تقسیم ازسر نو کریں، کیونکہ میں نے پہلے ہی کل زمین دو حصوں میں تقسیم کی ہے تو بیٹوں نے انکار کیا۔ بڑے بیٹے نے کہا کہ آپ نے مجھے ھبہ کردی ہے لہذا میں دوبارہ تقسیم نہیں کروں گا۔

فیصلہ اس وقت کے مقامی علماء کرام کے پاس گیا تو انہوں نے بڑے بیٹے محمد حنیف کے حق میں فیصلہ دیا کہ عبدالاحد نے جو زمین بڑے دو بیٹوں میں تقسیم کردی ہے اور بیٹوں نے اس پر قبضہ و تصرف حاصل کرلیا ہے لہذا آپ ان سے واپس نہیں لے سکتے۔ اس فیصلہ کے کافی عرصہ بعد تک عبدالاحد حیات رہے، اس کا تذکرہ نہیں ہوا۔ پھر عبدالاحد کی وفات کے بعد تیسرے بیٹے عبدالصمد کی پرورش دوسرے بیٹے محمد شفیع نے کی اور اپنے حصے میں سے کچھ مخصوص حصہ اپنے چھوٹے بھائی عبدالصمد کو دیاجس پر قبضہ اور تصرف محمد شفیع کی وفات کے بعد حاصل کیا ۔ اب بھی اس پر اسی کا قبضہ ہے۔محمد حنیف کے ریکارڈ شدہ بیان (جوکہ اگلے سوال میں مکمل لکھا ہوا ہے) کے مطابق ٹھنڈا پانی والی زمین والد نے اپنی ملکیت میں رکھی تھی۔

اب سوال یہ ہے کہ عبدالاحد نے اپنے بڑے دو بیٹوں کے درمیان جو کل زمین کے دو حصے کرکے دونوں میں تقسیم کردی تھی اور دونوں بیٹوں نے قبضہ و تصرف بھی کامل طور پر حاصل کرلیا تھا، اب عبدالاحد کی وفات کے تقریباً 35 سال بعد تیسرے بیٹے عبدالصمد کو باپ کی زمین سے حصہ ملے گا یا نہیں؟ جب کہ اس وقت کے علماء کا فیصلہ تھا کہ یہ ھبہ ہے اور ھبہ میں والد رجوع نہیں کرسکتا۔ کیا والد اپنی اولاد کو دی ہوئی زمین سے رجوع کرسکتا ہے جب کہ اولاد نے اس پر کامل طور پر قبضہ و تصرف حاصل کرلیا ہو؟

تنقیح: سائل سے فون پر معلوم ہوا کہ چھوٹے بیٹے محمد شفیع کے نزدیک بھی زمین کا کچھ حصہ والد کی ملکیت میں تھا جو کہ تقسیم نہیں ہوا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

والد جب اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اولاد میں تقسیم کرے تو یہ والد کی طرف سے اولاد کو ہبہ ہوتا ہے۔ایسے میں شرعاً ودیانۃً والد کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ  تمام اولاد بشمول بیٹیوں کو برابر حصہ دے یا زیادہ سے زیادہ بیٹوں کو بیٹیوں کے مقابلے میں دوگنا حصہ دے، لیکن والد کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ  اپنی کل جائیداد اولاد میں سے کسی ایک  یا بعض کو دے کر دوسروں کو اس سے بالکل محروم کردے۔ایسا کرنے سے والد سخت گناہ گار ہوگا۔البتہ یہ ناجائز ہونے کے باوجود اگر والد نے اپنے مال کو تقسیم کرکے اس پر بعض ورثاء کو  قبضہ کروادیا ہو تو ھبہ مکمل ہوکر وہ مال والد کی ملک سے نکل جاتا ہے، اس کے بعد والد اس ھبہ سے رجوع بھی نہیں کرسکتا، کیونکہ شرعاً اپنے ذی رحم محرم کو ھبہ کرنے کے بعد اس سے رجوع نہیں کیا جاسکتا۔

 مذکورہ اصول کی روشنی میں سائل کے بیان کے مطابق بیٹوں (محمد حنیف اور محمد شفیع) نے موہوبہ زمین پر مکمل قبضہ و تصرف حاصل کرلیا تھا ،اس لیے  یہ ہبہ مکمل ہوکر زمین ان کی ملکیت میں آچکی تھی۔ لہذا جب والد نے اپنی ملکیت میں موجود کل زمین اپنے بیٹوں محمد حنیف اور محمد شفیع کے درمیان تقسیم کردی تھی تو اس صورت میں تیسرے بیٹے عبدالصمد کو اس  زمین سے میراث  کے طور پر کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ البتہ  والد نے جو زمین تقسیم نہیں کی تھی اور موت تک وہ اس کی ملکیت میں باقی رہی  تھی تو  اس بچے ہوئے حصے میں عبدالصمد سمیت تمام ورثاء بشمول بیٹیوں اور والدہ کے شریک ہوں گے۔ ان سب کو اس میں سے میراث کے مطابق حصہ دینا لازمی ہے۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (35/ 25)
رجل وهب في صحته كل المال للولد جاز في القضاء ويكون آثما فيما صنع ، كذا في الخانية .
مجلۃ الأحکام العدلیۃ (162)
(مادۃ 841) القبض فی الھبۃ کالقبول فی البیع. بناءً علیہ تتم الھبۃ إذا قبض الموھوب لہ فی مجلس الھبۃ المال الموھوب بدون أن یقول قبلت او اتہبت عند إیجاب الواھب أي قولہ وھبتك ھذا المال.
(مادۃ 861) یملك الموھوب لہ الموھوب بالقبض.
        الفتاوی الھندیۃ (4/431)
ولیس لہ  حق الرجوع بعد التسلیم فی ذی الرحم المحرم  .
ولا یرجع فی الھبۃ من المحارم بالقرابۃ کالآباء والأمھات وإن علوا والأولاد وإن سفلوا۔ وأولاد البنین والبنات فی ذٰلك سواء۔

      سیف اللہ

   دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

07/03/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سیف اللہ بن زینت خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب