021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ھبہ کو فسخ کرنے کا حکم،واہب ذی رحم محرم ہویاواہب کاانتقال ہوجائے توہبہ فسخ نہیں ہوسکتا
70330ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ واپس کرنے کابیان

سوال

عبدالاحد نے اپنی کل زمین کو اپنے دو بیٹوں محمد حنیف اور محمد شفیع کے درمیان تقسیم کرکے مکمل قبضہ و تصرف دے دیا۔تقریباً 12 سال بعد عبدالاحد کے گھر تیسرے بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کا نام عبدالصمد ہے۔عبدالاحد نے ازسر نو تقسیم کرنا چاہی لیکن بڑے بیٹوں نے انکار کیا۔پھر کچھ عرصہ بعد عبدالاحد  وفات پاگئے۔

اس کے کئی سال بعد بڑے بیٹے محمد حنیف حج کے سفر پر جانے لگے تو بطور سربراہ خاندان مجلس قائم کی جس میں کافی سارے خاندانی مسائل کو زیر بحث لایا گیا۔ ان جملہ مسائل میں ایک مسئلہ عبدالاحد کے چھوٹے بیٹے عبدالصمد کے حوالے سے بھی تھا۔ ان کی وراثت کے بارے میں محمد حنیف کا موقف یہ تھا جو کہ ٹیپ ریکارڈنگ کی صورت میں اب بھی موجود ہے کہ  والد نے مجھے کل زمین کا نصف دیا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ سنٹر سیری والی زمین اور کول سے نیچے والی زمین برابر نصف نصف ہے، جب کہ ٹھنڈا پانی والی زمین والد نے اپنی ملکیت میں رکھی جو کہ میرے دعوی کے مطابق ایک پورا حصہ ہے۔ والد نے تقسیم کرکے دینے کے بعد کئی مرتبہ یہ کہا کہ بڑے بیٹے کو میں نے زمین کا نصف حصہ دیا۔ والد کے کہنے کے مطابق میں نے تسلیم کرلیا۔ بعد میں والد نے کہا کہ چھوٹا بھائی ہے دوبارہ تقسیم کرلو لیکن اب میں دوبارہ تقسیم نہیں کرتا، تاہم اپنی جگہ ناپ تول کرکے مکمل کیا ہے۔ انیس بیس کے فرق کے سوا کوئی فرق نہیں ۔ تاہم رکھ(یعنی کاپ والی زمین جو گھاس کے لیے مختص اور ملکیتی ہوتی ہے) وغیرہ اور ٹھنڈا پانی والی زمین اگرچہ زائد اور والد کے ترکہ میں تھی جس میں میرا(محمد حنیف کا) بھی حصہ ہے، لیکن میں نے چھوٹے دو بھائی ہونے کی وجہ سے اعتراض نہیں کیا۔ اگر پھر بھی میرا بھائی محمد شفیع جو محفل میں اس وقت موجود ہے، اس کو کوئی اعتراض ہو تو میری واپسی پر کمی بیشی پوری کروں گا۔ اگر نہ آسکا تو میرا یہ بھائی خود ناپ کرکے برابر کرلے۔(ٹیپ ریکارڈنگ بیان مکمل ہوا)

اس بیان سے دو چیزیں واضح ہوتی ہیں:

  1. عبدالاحد نے ایک حصہ محمد حنیف اور ایک حصہ محمد شفیع کو دیا اور خود بھی محمد شفیع کے ساتھ رہے۔
  2. تیسرا حصہ اپنی ملکیت میں رکھا جو اب تیسرے بیٹے عبدالصمد کے قبضے میں ہے۔

محمد حنیف سفر حج سے واپسی کے بعد تقریباً 13 سال تک زندہ رہے، اس دوران عبدالصمد نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔یاد رہے کہ محمد حنیف کے انتقال سے ایک سال قبل محمد شفیع بھی فوت ہوچکے تھے۔ دونوں بھائیوں کی وفات کے تقریباً 10 سال بعد تیسرے بیٹے یعنی عبدالصمد محمد حنیف کی ریکارڈنگ کو بنیاد بناکر اپنے بھتیجوں پر یہ دعوی کررہا ہے کہ اس بیان سے والد کی کی ہوئی تقسیم کالعدم ہوگئی ہے اور ھبہ ٹوٹ گیا ہے، لہذا ازسر نو باپ کی ساری زمین تقسیم کی جائے۔

پوچھنا یہ ہے کہ عبدالاحد کے بڑے بیٹے محمد حنیف کا سفر حج پر جاتے ہوئے جو بیان ریکارڈ کیا گیا، اس بیان سے ھبہ ٹوٹے گا یا نہیں؟ جب کہ تیسرا بیٹا عبدالصمد اور کچھ علماء کرام کا موقف یہ ہے کہ محمد حنیف کے بیان سے ھبہ ٹوٹ جائے گا اور باقی علماء کرام کا موقف  ہے  کہ والد کا ھبہ اس بیان سے نہیں ٹوٹے گا۔

تنقیح: سائل سے فون پر معلوم ہوا کہ چھوٹے بیٹے محمد شفیع کے نزدیک بھی زمین کا کچھ حصہ والد کی ملکیت میں تھا جو کہ تقسیم نہیں ہوا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ھبہ کو فسخ(ختم) کرنے کے بارے میں اصول یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے ذی رحم محرم کو ھبہ کرے یا واہب ( ھبہ کرنے والا) اور موہوب لہ (ھبہ قبول کرنے والا) میں سے کوئی فوت ہوجائے تو ان دونوں صورتوں میں ھبہ  لازم ہوجاتا ہے، پھر اس کو فسخ نہیں کیا جاسکتا۔  

مذکورہ سوال  میں یہ دونوں صورتیں موجود ہیں۔ اس لیے کہ عبدالاحد نے زمین اپنے بیٹوں کو ھبہ کی تھی جو کہ ان کے ذی رحم محرم ہیں، اور جب محمد حنیف حج پر جاتے ہوئے بیان ریکارڈ کروارہے تھے تو اس وقت عبدالاحد فوت ہوچکے تھے، اور اب عبدالصمد کے دعوی کرتے وقت عبدالاحد کے دونوں بیٹے بھی فوت ہوچکے ہیں۔نیز محمد حنیف کے بیان میں ایسی کوئی بات نہیں پائی جارہی ہے جس سے ھبہ کو فسخ کیا جاسکے۔

 ان وجوہ کی بناء پر اب حکم یہ ہے کہ والد نے زمین کا جو حصہ اپنی زندگی میں اولاد کو ھبہ کرکے قبضہ کروادیا تھا اس کا ھبہ مکمل ہوگیا ہے، اب کسی بھی صورت میں اس کو فسخ(ختم) نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا محمد حنیف کے ریکارڈ شدہ بیان سے ھبہ ختم نہیں ہوگا۔ البتہ زمین کے جس حصے کے بارے میں ورثاء کا اتفاق ہے کہ یہ والد نے تقسیم نہیں کیا تھا  یا تقسیم کے بعد زمین کے جس حصے پر قبضہ نہیں ہوا تھا تو وہ  حصہ والد کے ترکہ میں شامل ہوگا۔ اس میں والد کی وفات کے وقت تمام زندہ ورثاء بشمول بیٹیوں اور والدہ کے شریک ہوں گے۔

حوالہ جات
الاختيار لتعليل المختار (ص: 30، بترقيم الشاملة آليا)
 ولا رجوع فيما يهبه لذي رحم محرم منه أو زوجة أو زوج
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 225)
ثم للرجوع موانع ذكر بعضها........قال: "أو يموت أحد المتعاقدين"؛ لأن بموت الموهوب له ينتقل الملك إلى الورثة فصار كما إذا انتقل في حال حياته، وإذا مات الواهب فوارثه أجنبي عن العقد إذ هو ما أوجبه.

      سیف اللہ

   دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

07/03/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سیف اللہ بن زینت خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب