021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدتِ طلاق کے دوران بوجہ مجبوری ملازمت کا حکم
70360طلاق کے احکامشوہر کی وفات پر سوگ منانا

سوال

میں اپنے بچوں کو پالنے کے لیے ایک اسکول میں ٹیچنگ کرتی ہوں،میرے والد کی اتنی حیثیت نہیں کہ اپنی فیملی کے ساتھ ہم تین لوگوں کا بوجھ بھی برداشت کرسکیں،سوال یہ ہے کہ عدت کے دوران اگر عورت کو بوجہ مجبوری ملازمت کرنی پڑے تو اس کا طریقہ کار کیا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نابالغ بچوں کا نان نفقہ توبالغ ہونے تک باپ کے ذمے لازم ہے،اسی طرح عدت کے دوران بیوی کا نان نفقہ بھی شوہر کے ذمے لازم ہے،اس لیے طلاق یافتہ عورت کا عدت کے دوران ملازمت کے لیے گھر سے نکلنا جائز نہیں ،تاہم اگر شوہر اپنا فرض پورا نہ کرتا ہو اور بیوی بچوں کو نان نفقہ نہ دیتا ہو اور شوہر کے علاوہ عورت کا کوئی قریبی رشتہ دار بھی اس کا نان نفقہ نہ دے سکتا ہو تو پھر بوجہ مجبوری دن کے وقت ملازمت کے لیے نکلنے کی گنجائش ہے،لیکن ملازمت کا وقت پورا ہوتے ہی گھر واپس لوٹنا لازم ہے۔

حوالہ جات
"رد المحتار" (3/ 536):
"قال في الفتح: والحاصل أن مدار حل خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره، فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها. اهـ. وبهذا اندفع قول البحر إن الظاهر من كلامهم جواز خروج المعتدة عن وفاة نهارا ولو كان عندها نفقة، وإلا لقالوا: لا تخرج المعتدة عن طلاق، أو موت إلا لضرورة فإن المطلقة تخرج للضرورة ليلا، أو نهارا اهـ.
ووجه الدفع أن معتدة الموت لما كانت في العادة محتاجة إلى الخروج لأجل أن تكتسب للنفقة قالوا: إنها تخرج في النهار وبعض الليل، بخلاف المطلقة. وأما الخروج للضرورة فلا فرق فيه بينهما كما نصوا عليه فيما يأتي".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

08/ربیع الاول1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب