021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عورتوں کی مسجد کی جماعت میں شرکت جائز نہیں
56130-2نماز کا بیانامامت اور جماعت کے احکام

سوال

عورتیں جماعت کی نماز پڑھ سکتی ہیں جبکہ ان کی جگہ مسجد کے نچلے حصے میں باقاعدہ پردے کے اہتمام کے ساتھ مردوں سے الگ ہے،اور ہمارے شہر میں ایک مولوی صاحب تین سال سے عورتوں کو تمام نمازیں باقاعدگی سے پڑھا رہے ہیں،اور دلیل یہ دیتے ہیں، ان عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول لاتمنعو نساءکم المساجد اذا استاذنکم۔ ۲۔مسجد حرام مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسجدوں میں عورتیں جماعت کے ساتھ نماز پڑھتی ہیں۔ ۳۔عورتیں بازار اور شاپنگ کے بجائے مسجد میں آیا کریں ،کیا یہ جائز ہے یانہیں؟مذکورہ مسئلہ کو دلائل کے ساتھ جواب دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ صلی اللہ علیہ کے زمانے میں تمام عورتیں نماز کے لئے مسجد نہیں آیا کرتی تھیں ، بلکہ ان کے لئے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں گھر میں نماز پڑھنا افضل تھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے اجازت طلب کرنے پر ان کی مسلسل آمد کی حوصلہ شکنی کرتے تھے ،البتہ متعدد دینی حکمتوں اور مصلحتوں کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کومسجد کی جماعت میں شرکت سے بلکلیہ منع نہ فرمایا تھا ،بعد میں فتنہ کے اندیشہ سے اس کی بھی ممانعت ہوگئی ،لہذا عورتوں کو چاہئے کہ گھر کے اندر نماز پڑھا کریں مسجد کی جماعت میں شرکت نہ کریں ۔ سوال میں ذکرکردہ مولوی صاحب کایہ عمل درست نہیں ،کتب فقہا ء کی تصریحات کے خلاف ہے اس سے فتنے کا دروازہ کھل سکتا ہے اصلاح نہیں ہوسکتی ،اس لئے مولوی صاحب کو چاہئے کہ اس عمل کو چھوڑ دیں اور جمہور کی رائے کا احترام کریں ۔ اگر خواتین کو دین کی طرف لانا مقصود ہو تو اسکے لئے ہفتہ وار یا ماہانہ مجلس وعظ منعقد کرے، اور ان کوقرآن وحدیث فقہ وتفسیر سنائیں ۔ جو حدیث انہوں نے پیش کی ہے اس صورت کےساتھ خاص ہے کہ فتنہ نہ ہو چنانچہ دوسری احادیث میں فتنہ کی وجہ سے ممانعت آئی ہے ۔
حوالہ جات
السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي (3/ 131) عن السائب مولى أم سلمةعن أم سلمة زوج النبى -صلى الله عليه وسلم- عن النبى -صلى الله عليه وسلم- قال :« خير مساجد النساء قعر بيوتهن ». سنن أبي داود للسجستاني (1/ 222) وعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « لاَ تَمْنَعُوا نِسَاءَكُمُ الْمَسَاجِدَ وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ ». السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي (3/ 133) عن عائشة رضى الله عنها قالت : لو رأى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ما أحدث النساء بعده لمنعهن المسجد كما منعته نساء بنى إسرائيل قلنا : يا هذه تعنى لعمرة ، أومنعته نساء بنى إسرائيل قالت : نعم. رواه مسلم فى الصحيح عن عمرو الناقد عن سفيان وأخرجه البخارى من وجه آخر عن يحيى. عمدة القاري شرح صحيح البخاري (10/ 331، بترقيم الشاملة آليا) قلت هذه عائشة رضي الله تعالى عنها صح عنها أنها قالت لو رأى رسول الله ما أحدث النساء لمنعهن عن المساجد كما منعت نساء بني إسرائيل فإذا كان الأمر في خروجهن إلى المساجد هكذا فبالأحرى أن يكون ذلك في خروجهن إلى المصلى فكيف يقول هذا القائل لم يثبت عن أحد من الصحابة مخالفتها وأين أم عطية من عائشة رضي الله تعالى عنها ولم يكن في حضورهن المصلى في ذلك الوقت استنصار بهن بل كان القصد تكثير السواد أثرا في إرهاب العدو ألا ترى أن أكثر الصحابة كيف كانوا يأخذون نساءهم معهم في بعض الفتوحات لتكثير السواد بل وقع منهن في بعض المواضع نصرة لهم بقتالهن وتشجيعهن الرجال وهذا لا يخفى على من له اطلاع في السير والتواريخ الدر المختار للحصفكي (1/ 610) (ويكره حضورهن الجماعة) ولو لجمعة وعيد ووعظ (مطلقا) ولو عجوزا ليلا (على المذهب) المفتى به لفساد الزمان
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / فیصل احمد صاحب