021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وکیل سے کام نہ ہوسکے تو اخراجات کی مد میں دی گئی رقم کی واپسی کا حکم
70143وکیل بنانے کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

ایک شخص کو قانونی ضرورت پیش آئی،وکیل سے یہ معاہدہ کیا گیا کہ اگر تم نے میرا کام کروادیا تو میں تمہیں ایک لاکھ روپے دوں گا،معاہدہ طے پانے کے کچھ عرصے بعد وکیل نے اخرجات کی مد میں پندرہ ہزار کا مطالبہ کیا جو اداء کردئیے گئے،اب صورت حال یہ ہے کہ وکیل سے وہ کام نہیں ہوسکا،سوال یہ ہے کہ کیا وکیل ان پندرہ ہزار کے واپس دینے کا پابند ہے یا نہیں جو اس نے اخراجات کی مد میں وصول کیے ہیں؟

واضح رہے کہ ایک لاکھ روپے حق الخدمت دینا کام مکمل ہونے سے مشروط تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں وکیل کی اجرت کو کام کی تکمیل کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے،اس طرح کا معاملہ شرعا جعالہ کہلاتا ہے جو اصولی طور پر احناف کے نزدیک جائز نہیں،جبکہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک جائز ہے،لیکن چونکہ آج کل وکالت کے شعبے میں اس طریقے سے معاملات طے کرنے کا عرف اور رواج بڑھ گیا ہے اور خیانت و بدعہدی کے عام ہونے کی وجہ سے اس کی ضرورت بھی ہے،اس لیے جس طرح دیگر شعبوں مثلا اسٹیٹ ایجنسی،گاڑیوں کی فروخت وغیرہ میں عرف و تعامل کی بنیاد پر اس کی گنجائش دی گئی ہے،اسی طرح وکالت کے شعبے میں بھی اس طریقے سے معاملہ کرنے کی گنجائش ہوگی،لہذا مذکورہ معاملہ جائز ہوگا۔

اورچونکہ جعالہ میں اجرت کام کی تکمیل کے ساتھ مشروط ہوتی ہے،اس لیے کام نہ ہونے کی صورت میں کام کرنے والے کو کوئی اجرت نہیں ملتی،اور مذکورہ صورت میں بھی وکیل سے کام ہوا نہیں،اس لیے یہ شخص وکیل سے پندرہ ہزار روپے کی واپسی کا مطالبہ کرسکتا ہے۔

حوالہ جات
"الموسوعة الفقهية الكويتية" (15/ 208):
"عقد الجعالة مباح شرعا عند المالكية والشافعية، والحنابلة، إلا أن المالكية يقولون: إنها جائزة بطريق الرخصة، اتفاقا، والقياس عدم جوازها بل عدم صحتها للغرر الذي يتضمنه عقدها.....
وقال الحنفية: بعدم جوازها في غير جعل العبد الآبق، ودليل المنع عندهم ما في الجعالة من تعليق التملك على الخطر (أي التردد بين الوجود والعدم) كما أن الجعالة التي لم توجه إلى معين لم يوجد فيها من يقبل العقد فانتفى العقد".
"المبسوط للسرخسي" (11/ 18):
" ثم الشافعي استحسن برأيه في هذه المسألة من وجه فقال: لو كان المولى خاطب قوما فقال: من رد منكم عبدي فله كذا فرده أحدهم استوجب ذلك المسمى، وهذا شيء يأباه القياس؛ لأن العقد مع المجهول لا ينعقد، وبدون القبول كذلك، ولا شك أن الاستحسان الثابت باتفاق الصحابة - رضي الله عنهم - خير من الاستحسان الثابت برأي الشافعي - رضي الله عنه -، ولا حجة له في قوله تعالى: {ولمن جاء به حمل بعير} [يوسف: 72] لأن ذلك كان خطابا لغير معين، وهو لا يقول به، فإنه لو قال: من رده فله كذا ولم يخاطب به قوما بأعيانهم فرده أحدهم لا يستحق شيئا، ثم هذا تعليق استحقاق المال بالخطر وهو قمار، والقمار حرام في شريعتنا، ولم يكن حراما في شريعة من قبلنا".
"رد المحتار" (4/ 364):
"مطلب في التعامل والعرف (قوله: لأن التعامل يترك به القياس) فإن القياس عدم صحة وقف المنقول لأن من شرط الوقف التأبيد، والمنقول لا يدوم والتعامل كما في البحر عن التحرير، هو الأكثر استعمالا وفي شرح البيري عن المبسوط أن الثابت بالعرف كالثابت بالنص اهـ وتمام تحقيق ذلك في رسالتنا المسماة [نشر العرف في بناء بعض الأحكام على العرف]".
"رد المحتار" (6/ 63):
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

09/صفر1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب