70401 | قسم منت اور نذر کے احکام | متفرّق مسائل |
سوال
بندہ نے ایک ملی نغمہ تحریر کیا تھا۔ جس کے اشعار میں سے ایک شعر یہ ہے :
تیری آزادئ خونچکاں کی قسم –تیری سطوت کا ڈنکا بجادیں گے ہم
یہ پورا نغمہ بندہ نے لکھنے کے بعد اصلاح کی غرض سے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم کی خدمت میں بھی پیش کیاتھا، حضرت نے ملاحظہ فرماکر کوئی تصحیح نہیں فرمائی ،بلکہ اس کو مِن و عَن ماہنامہ البلاغ میں طباعت کے لیے بھجوادیا تھا۔ مگر بعد میں اس نغمہ کے درجِ با لا شعر سے متعلق بعض حضرات نے یہ اشکال فرمایاکہ اس میں غیراللہ کی قسم کھائی گئی ہے،جس کے بارے میں احادیث میں ممانعت وارد ہے ۔چنانچہ ایک حدیث " من حلف بغیراللہ فقد اشرک" میں اس کو شرک قرار دیا گیا ہے ۔
بظاہر یہ اشکال اس لیے درست معلوم نہیں ہوتا کہ بندہ کے خیال میں یہ "شعری قسم " ہے ،شرعی قسم نہیں ہے ،اور حدیث شریف میں وارد ممانعت شرعی قسم سے متعلق ہے ۔ تاہم اس اشکال کی علمی تحقیق ضروری معلوم ہوتی ہے۔ اسلیے آنجناب سے سوال یہ ہے کہ حلف بغیراللہ کے بارے میں علمی تحقیق کیا ہے ؟ آیا یہ مطلقاً منع ہے ، یا اس بارے میں کچھ تفصیل ہے ؟نیز کیا اس قسم کے اشعار جو حلف بغیراللہ پر مشتمل ہوں کہنا جائز ہیں یا نہیں ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
کسی چیز کی قسم کھانا درحقیقت اس چیز کی تعظیم پر دلالت کرتا ہے ، چونکہ حقیقی تعظیم اللہ رب العزت کے ساتھ خاص ہے ، اس لیے احادیث میں غیر اللہ کی قسم کھانے سے ممانعت وارد ہوئی ہے ۔احادیث میں یہ ممانعت اگرچہ بظاہر مطلقاً ہے ،لیکن شرّاحِ حدیث کے کلام میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ممانعت مطلق نہیں ہے ،بلکہ اس صورت کے ساتھ خاص ہے ،جس میں قسم کا حقیقی معنی یعنی تعظیم مقصود ہو۔چنانچہ درج ِذیل قرائن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر غیراللہ کے نام کی قسم اٹھانے سے اُس غیرکی تعظیم مقصود نہ ہوتو اس صورت میں غیراللہ کی قسم کھانا ممنوع نہیں ہے:
1۔ بعض احادیث میں کچھ ایسے جملےملتے ہیں جن میں غیر اللہ کی قسم کھائی گئی ہے ، مگرشرّاح ِحدیث کے بقول چونکہ ان جملوں سےغیراللہ کی تعظیم مقصود نہیں ،بلکہ تاکیدِ کلام یا تحسین کلام مقصود ہے ، اس لیے وہ یمین محرم میں داخل نہیں ۔ جیسے تکملہ فتح الملہم میں حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب تحریر فرماتے ہیں :
وربما یشکل علیہ ماأخرجہ مسلم فی کتاب الأیمان ، فی حدیث الإعرابی ، حیث قال لہ رسول اللہ ﷺ "أفلح وأبیہ إن صدق"۔ وقد أجاب عنہ العلماء بوجوہ:
ألأول:إن عبدالبر قد طعن فی صحۃ ھذاللفظ، وقال:ھذہ اللفظۃغیر محفوظۃ، وقد جاءت عن راویھا وھو إسماعیل بن جعفر بلفظ :"أفلح واللہ ان صدق"۔وھذا أولی من روایۃمن روی عنہ بلفظ :"أفلح وأبیہ"۔لانھالفظ منکرۃ۔
ألثانی :إن ھذااللفظ کان یجری علی ألسنتھم من غیر أن یقصدوا بہ القسم ، والنھی إنما ورد فی حق من قصد حقیقۃ الحلف ، وإلی ھذا جنح البھیقی ، ورضیہ النووی ایضاً، ولکن یشکل علیہ أن ظاھر حدیث عمرأنہ کان یقول :"وأبی وأبی "عادۃ،ولایقصد الحلف ، ومع ذلك نھاہ النبی ﷺ۔
الثالث:قال البیضاوی : ھذااللفظ من جملۃ مایزاد فی الکلام لمجرد التقریر والتاکید ، ولایراد بہ القسم ، کما یزاد صیغۃ النداء لمجرد الاختصاص ، دون القصد إلی النداء ۔
الرابع:إن القسم یقع فی کلام العرب لوجھین :الأول للتعظیم ، والثانی :للتاکید ، والنھی إنما وقع عن الاول ، دون الثانی ۔
اسی طرح علامہ شامی رحمتہ اللہ علیہ فتاوی شامی میں تحریر فرماتے ہیں :
ويمكن أن يكون المراد بقولهم لعمري وأمثاله ذكر صورة القسم لتأكيد مضمون الكلام وترويجه فقط لأنه أقوى من سائر المؤكدات، وأسلم من التأكيد بالقسم بالله تعالى لوجوب البر به، وليس الغرض اليمين الشرعي وتشبيه غير الله تعالى به في التعظيم حتى يرد عليه أن الحلف بغير اسمه تعالى وصفاته عز وجل مكروه كما صرح به النووي في شرح مسلم،۔
2۔اگر قسم سے تعظیم مقصود نہ ہوتو اس صورت میں غیراللہ کی قسم کھانے کی عدم ِ ممانعت کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ شرعاً یمین لغوپرکوئی مؤاخذہ نہیں ہے ،حالانکہ یمین لغو میں حالف قسم کے لیے اللہ رب العزت کا نام استعمال کرتا ہے ، لیکن چونکہ حالف ایسی قسم کومحض تکیہ کلام کے طور پر استعمال کرتا ہے ،اوراس سے اس کا مقصودحقیقی قسم کھانا نہیں ہوتا،شاید اسی لیےاُس پرشرعاً حقیقی قسم کے احکام جاری نہیں کیے گئے ۔ جیسے صاحب الجوھرۃ النیرۃ تحریر فرماتے ہیں :
إن يمين اللغو ما يجري على الألسنة من قولهم لا والله ، بلى والله من غير اعتقاد في ذلك واللغو في اللغة هو الكلام الساقط الذي لا يعتد به قوله ( فهذه اليمين نرجو أن لا يؤاخذ الله بها صاحبها )
3۔مذکورہ بات کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ جو یمین طلاق اور عتاق کی تعلیق کے ساتھ ہو ،اگرچہ اس میں حرف قسم نہیں ہوتا، لیکن فقہاء کے نزدیک وہ بھی بحکم یمین ہے ، لیکن اس صورت میں چونکہ قائل کا مقصود قسم کا حقیقی معنی یعنی تعظیم نہیں ہوتا،بلکہ توثیق و تاکید ہوتی ہے ،اس لیے ایسی یمین بھی ممنوع نہیں ہے ، جیسے علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ اعلاء السنن میں تحریر فرماتے ہیں :
قلت:حدیث النہی عن الحلف بغیراللہ محمول علی غیرالتعلیق، وھو الحلف المتعارف بأدوات القسم أو بقولہ :أحلف و أقسم و آلیت ونحوھا،لأن ھذا ھوالیمین وضعاً۔وأما تعلیق الجزاء بالشرط فلیس بیمین وضعاً،وإنماسمی یمیناعند الفقہاءلحصول معنی الیمین باللہ تعالی ،وھو الحمل أو المنع،فالحلف بغیراللہ من غیر تعلیق یکرہ إتفاقاً،لمافیہ من مشارکۃ المقسم بہ للہ تعالی فی التعظیم ۔ وأما التعلیق فلیس فیہ تعظیم ، بل فیہ الحمل أو المنع مع حصول الوثیقۃ، فلایکرہ اتفاقاً۔ (11/349)
مذکورہ بالا تفصیل عام کلام یعنی نثر میں حلف بغیراللہ سے متعلق ہے ۔جہاں تک نظم اورشعرکاتعلق ہے تو چونکہ وہ بھی کلام کی ایک صنف ہے ،اس لیے اس میں بھی حلف بغیراللہ کے حکم میں بظاہر یہی تفصیل ہونی چاہیے کہ اگر اشعار میں بھی غیراللہ کی قسم سے اس کا حقیقی معنی مراد نہ ہو، بلکہ تاکید یا تحسین ِکلام وغیرہ مقصود ہوتو وہ یمین محرم میں داخل نہیں ہوگا۔بلکہ اس لحاظ سے اشعار میں بطریق اولی یہ تفصیل ہونی چاہیے کہ اشعار کی اصل وضع حقائق کے بیان کے لیے نہیں ہے ،چنانچہ اشعار کے مضامین عموما تحقیقی نہیں ہوتے ،بلکہ محض خیالی ہوتے ہیں ، اسی لیے اشعار میں جو خطاب ہوتا ہے وہ بھی اکثر حقیقی نہیں ، بلکہ محض تخیّلاتی ہوتا ہے ۔چنانچہ شاعر اکثرایسی چیزوں کو بھی خطاب کرتا ہے جن میں خطاب کو سننے ،سمجھنے کی اہلیت وصلاحیت ہی نہیں ہوتی ،علاوہ ازیں شعروشاعری میں بکثرت مجاز واستعارہ کا بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ان وجوہ سے شعرمیں اس بات کا زیادہ امکان ہوتا ہے کہ قسم کے الفاظ سے بھی اس کا حقیقی معنی یعنی تعظیم مراد نہ ہو،بلکہ تاکید یا تحسین ِکلام وغیرہ مقاصد ہوں۔
اس تفصیل کی روشنی میں صورت مسئولہ کا حکم یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان اشعار میں بھی شاعر نے جو قسم کھائی ہےبظاہر اس سے شاعر کا مقصودقسم کا حقیقی معنی یعنی تعظیم نہیں ،بلکہ استشہاد یا کلام کی تاکید مقصود ہے ،اس لیے یہ یمین ِمحرم میں داخل نہیں ، تاہم چونکہ اس طرح کی قسم میں بھی تعظیم کااحتمال موجودہوتا ہے ،اس وجہ سے علامہ انورشاہ کشمیری رحمتہ اللہ علیہ کے بقول ایسی قسم سے بھی عوام کو منع کرنا چاہیے ،چنانچہ وہ فیض الباری میں تحریر فرماتے ہیں :
وأحسن الأجوبة ما ذكره الجلبي في «حاشية المطول» على لفظ: «ولعمري»،والشامي على «الدر المختار» في خطبته: أنه قسم لغوي لا شرعي، والمقصود في الأول تزيين الكلام لا غير، والمطلوب من الثاني التأكيد مع تعظيم المحلوف به، والممنوع هو الثاني دون الأول، والمذكور هو الأول دون الثاني. ثم عندي أنه ينبغي الحجر عنه مطلقا سدا للذرائع لئلا يتساهل فيه الناس.
خلاصہ کلام یہ ہے کہ صورت مسئولہ میں ذکرکردہ قسم سے بظاہر قسم کا حقیقی معنی یعنی تعظیم مراد نہیں ہے ،بلکہ تاکید ِکلام یا استشہاد مراد ہے ، اس لیے یہ یمین محرم میں داخل نہیں ہے ۔ البتہ تعظیم کے معنی کا احتمال ہونے کی وجہ سے عوامی مجامع میں اس قسم کےاشعارپڑھنے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔
حوالہ جات
فيض القدير (6/ 155)
(من حلف) أي أراد الحلف (فليحلف برب الكعبة) لا بالكعبة فإن الحلف بمخلوق مكروه وإن كان عظيما كالكعبة والأنبياء والملائكة وإقسام الله ببعض مخلوقاته تنبيه على شرفها.
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (33/ 479، بترقيم الشاملة آليا)
والحكمة في النهي عن الحلف بالآباء أنه يقتضي تعظيم المحلوف به وحقيقة العظمة مختصة بالله جلت عظمته فلا يضاهي به غيره وهكذا حكم غير الآباء من سائر الأشياء وما ثبت أنه قال أفلح وأبيه فهي كلمة تجري على اللسان لا يقصد بها اليمين وأما قسم الله تعالى بمخلوقاته نحو والصافات والطور والسماء والطارق والتين والزيتون والعاديات فلله أن يقسم بما شاء من خلقه تنبيها على شرفه أو التقدير ورب الطور وقال أبو عمر لا ينبغي لأحد أن يحلف بغير الله لا بهذه الأقسام ولا بغيرها لإجماع العلماء على أن من وجب له يمين على آخر في حق فله أن يحلف له إلا بالله ولو حلف له بالنجم والسماء وقال نويت رب ذلك لم يكن عندهم يمينا۔
شرح مختصر الطحاوي للجصاص (7/ 396)
وروى أبو هريرة عن النبي عليه الصلاة والسلام أنه قال: "لا تحلفوا بآبائكم ولا بأمهاتكم ولا بالأنداد، ولا تحلفوا إلا بالله".وسمع ابنُ عمر رجلاً يحلف: لا والكعبة، فقال له ابن عمر: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "من حلف بغير الله فقد أشرك".ففي هذه الأخبار كلها النهي عن الحلف بغير الله.فإن قيل: رُوي عن طلحة بن عبيد الله في قصة الأعرابي الذي سأل النبي عليه الصلاة والسلام عن الفرائض، فأجابه فقال: "لا أزيد عليها شيئًا، ولا أنقص منها"، فقال النبي عليه الصلاة والسلام: "أفلح وأبيه إن صدق، دخل الجنة وأبيه إن صدق".قيل له: ليس مخرج هذا الكلام مخرج الأيمان؛ لأنه معلومٌ منه أنه لم يُرد تعظيم أبي الأعرابي، وأبوه كان مشركًا، وإنما هذا على حسب ما يجري عليه الكلام في عادات الناس، لا يراد به اليمين.
تحفة الأحوذي (5/ 113)
وأما ما وقع مما يخالف ذلك كقوله صلى الله عليه و سلم للأعرابي أفلح وأبيه أن صدق فأجيب عنه بأن ذلك كان قبل النهي أو بأنها كلمة جارية على اللسان لا يقصد بها الحلف كما جرى على لسانهم عقري حلقي وما أشبه ذلك أو فيه إضمار اسم الرب كأنه قال ورب أبيه وقيل هو خاص ويحتاج إلى دليل ۔۔۔۔وأقوى الأجوبة الأولان قاله الحافظ في الفتح وقد بسط الكلام فيه وأحاديث الباب تدل على أن الحلف بغير الله لا ينعقد لأن النهي يدل على فساد المنهي عنه وإليه ذهب الجمهور۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 3)
وأما يمين اللغو فقد اختلف في تفسيرها، قال أصحابنا: هي اليمين الكاذبة خطأ أو غلطا في الماضي أو في الحال وهي أن يخبر عن الماضي أو عن الحال على الظن أن المخبر به كما أخبر وهو بخلافه في النفي أو في الإثبات، نحو قوله: والله ما كلمت زيدا وفي ظنه أنه لم يكلمه، أو والله لقد كلمت زيدا وفي ظنه أنه كلمه وهو بخلافه أو قال: والله إن هذا الجائي لزيد، إن هذا الطائر لغراب وفي ظنه أنه كذلك ثم تبين بخلافه وهكذا روى ابن رستم عن محمد أنه قال: اللغو أن يحلف الرجل على الشيء وهو يرى أنه حق وليس بحق.وقال الشافعي يمين اللغو هي اليمين التي لا يقصدها الحالف وهو ما يجري على ألسن الناس في كلامهم من غير قصد اليمين من قولهم: لا والله، وبلى والله، سواء كان في الماضي أو الحال أو المستقبل.وأما عندنا فلا لغو في المستقبل بل اليمين على أمر في المستقبل يمين معقودة وفيها الكفارة إذا حنث، قصد اليمين أو لم يقصد وإنما اللغو في الماضي والحال فقط، وما ذكر محمد على إثر حكايته عن أبي حنيفة أن اللغو ما يجري بين الناس من قولهم لا والله وبلى والله فذلك محمول عندنا على الماضي أو الحال وعندنا ذلك لغو فيرجع حاصل الخلاف بيننا وبين الشافعي في يمين لا يقصدها الحالف في المستقبل عندنا ليس بلغو وفيها الكفارة وعنده هي لغو ولا كفارة فيها.
طلحہ بن قاسم
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
09 ربیع الاول 1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | طلحہ بن قاسم | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |