021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وکیل اورمؤکلوں کے درمیان اختلاف کی صورت میں مدعی اور مدعی علیہ کی پہچان
70516فیصلوں کے مسائلثالثی کے احکام

سوال

دوفریقوں کے درمیان ایک تنازعہ ہے،پہلافریق سمندرخان،زمیندارخان اوراس کی برادری ہےجبکہ دوسرافریق قوم یاراخیل ہے،دونوں فریقوں کا تنازعہ ایک پہاڑ پرہےجس کے حل کےلیے فریق اول نے اپنی برادری میں سے ایک شخص خانوادہ کوکھڑا کیا یعنی اس کو وکیل بنایا اورساتھ ہی1173261( گیارہ لاکھ تہترہزاردوسواکسٹھ) روپے اپنی برادری سے جمع کرکے خرچ کےلیے خانوادہ کومکمل اختیارات کے ساتھ دیئے۔ خانوادہ اس بات کو تسلیم کرتاہے کہ مذکورہ رقم مجھے دی گئی ہے اورمیں نے لی ہے۔

         ہوا یہ کہ خانوادہ نے تقریباً18مہینے بھاگ دوڑ کی لیکن بدقسمتی سے اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا اورمسئلہ حل نہیں ہوا ،بالآخراس کی برادری جس نے رقم جمع کرکے خرچ کےلیے دی تھی خانوادہ سے حساب مانگاتاکہ اگر اس کی اضافی رقم خرچ ہوگئی ہوتو اس کو مزید دی جائے اوراگردیئے گئے رقم میں سے کچھ بچ گئی ہوبقایا خانوادہ لوٹادے ،حساب دینے کےلیے خانوادہ تیارہوگیا اس بات کے اقرارکے ساتھ  کہ میں نے برادری سے مذکورہ رقم یعنی گیارہ لاکھ تہترہزاردوسواکسٹھ روپےلیے تھے۔

         اب خانوادہ یہ کہتاہے کہ ان اٹھارہ مہینوں میں میراخرچہ 1488000(چودہ لاکھ اٹھاسی ہزار) ہواہےلہذا تم مجھے مزید314739روپے دوگےجبکہ برادری والے  اس سے منکر ہے اوروہ کہتے ہیں تمہاراخرچہ زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین لاکھ ہوا ہے،لہذا باقی رقم823261 واپس کرو ،تم زائد خرچ کا  دعوی کررہے ہو۔

         مذکورہ مسئلہ کو شریعت کی روشنی میں حل کرنے کے لیے فریقین یعنی برادری کے لوگوں  اورخانوادہ نے جرگہ کو اختیاردیا، اورجرگہ والوں نے اس مسئلہ کو حل کرنےکےلیے بطورقاضی حضرت مولاناخورشیداحمد نقشبندی صاحب اورمفتی فاروق عبداللہ صاحب کو منتخب کیا، چنانچہ قاضی صاحبان نے فریقین کے دعوؤں کی مکمل چھان بین اورمکمل موازنہ کرنے کے بعدکراچی کے بڑے اورنامورمدارس کے مفتیانِ کرام سے مشاورت کے بعداحادیث اورفقہی عبارات کی روشنی میں فریقین کے درمیان درج ذیل فیصلہ کیا۔

"فریقین کے دعوؤں کو (جن کاخلاصہ اوپر درج کیا گیاہے ) احادیث اورفقہ کی روشنی میں پرکھاگیا تو فریق دوم خانوادہ مدعی بن رہاتھااورفریقِ اول سمندرخان اوراس کے ساتھی مدعی علیہم بن رہے تھے اورخضورصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہےکہ "البینة علی المدعی واليمين على من أنكر"  گواہ پیش کرنامدعی کے ذمہ ہے اورقسم کھانامنکریعنی مدعی علیہ کے ذمہ ہے۔لہذا اس حدیث کی روشنی میں جب مدعی خانوادہ اپنے دعوی پر کوئی گواہ پیش نہیں کرسکاتو مدعی علیہ سمندرخان اوراس کے ساتھی قسم کھانے کے پابند ہوں گے۔

         مذکورہ تفصیل کے پیشِ نظریہ فیصلہ جاری کیاگیاکہ فریق اول سمندرخان اوراس کے ساتھی قسم کھائیں گے" ۔

اب سوال یہ ہےکہ مذکورہ بالامسئلہ میں شریعت کی روشنی میں مدعی کون ہے اورمدعی علیہ کون ہے ؟ اورجو مذکورہ بالا فیصلہ کیا گیاہے کیا وہ درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ سوال میں نزاع دو امورمیں ہیں:

       ١۔ خانوادہ کو دی گئی رقم مکمل طورپر خرچ نہیں ہوئی بلکہ بچ گئی ہے، اس میں فریق اول مدعی اورخانوادہ مدعی علیہ اورمنکرہے،کیونکہ وہ وکیل ہے اوروکیل امین اورقابض ہوتاہے اورامین اورقابض کا قول قسم کے ساتھ معتبرہوتاہے نیز اگرفریق اول رقم بچ جانےکا دعوی چھوڑدے تو اسے خصومت پر مجبورنہیں کیاجاسکتاہے اس لحاظ سےفقہاء کرام نے مدعی کی جو تعریف لکھی  ہےکہ "من لایجبر علی الخصومة اذا ترک"فریق اول   پر صادق آتی ہے،لہذا وہ مدعی اورخانوادہ مدعی علیہ ہے،لہذا خانوادہ اس بات پر قسم کھائے گا کہ دی گئی کل رقم یعنی 1173261 (گیارہ لاکھ تہترہزاردوسواکسٹھ)  سب کے سب خرچ ہوگئی ہے اوراس میں سے کچھ بھی میرے پاس نہیں بچی،لہذا فریق اول کا میرے ذمہ کچھ نہیں ۔

         ۲۔ خانوادہ نے دی گئی رقم سے زیادہ خرچ کی ہے یانہیں؟ اس میں خانوادہ مدعی اورفریق اول منکرہے ،لہذا خانوادہ 1173261 (گیارہ لاکھ تہترہزاردوسواکسٹھ)  سے جوزائد رقم خرچ ہوئی ہے اس کے خرچ ہونے پر گواہ لائے گا،پھر بھی اس خرچ کے وصولی کا خانوادہ حقدار تب بنے گا جب فریقِ اول نے اس کومذکورہ بالا رقم سے زیادہ رقم خرچ کرنے کا وکیل بنایاہو،اگروکیل نہ بنایا ہو تو وہ کسی طرح اضافی رقم کاحقدارنہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ توکیل کی صورت میں خانوادہ اگراضافی رقم خرچ ہونے پرگواہ پیش نہ کرسکے تو مخالفین اپنے علم کے مطابق قسم اٹھائیں گےکہ ہماے علم کے مطابق یہ اضافی رقم خرچ نہیں ہوئی۔

حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي - (ج 14 / ص 450)
(وبشراء أمة بألف دفع إليه فاشترى فقال اشتريت بخمسمائة وقال المأمور بألف فالقول للمأمور)
لانه أمين فيه وقد ادعى الخروج عن عهدة الامانة والآمر يدعي عليه ضمان خمسمائة وهو ينكر.
وفی المبسوط - (ج 19 / ص 443)
وأصل معرفة المدعي من المدعى عليه أن ينظر إلى المنكر منهما فهو المدعى عليه والآخر المدعي وهذا أهم
ما يحتاج إلى معرفته في هذا الكتاب وما ذكره في الكتاب كلام صحيح فإن النبي صلى الله عليه وسلم جعل المدعى عليه المنكر بقوله صلى الله عليه وسلم { واليمين على من أنكر }.
وفی بدائع الصنائع،کتاب الدعوی،ج:8 ص:417
ینظر الی المتخاصمین ایھما کان منکرا فالاخر کان مدعیا.
وفی العناية شرح الهداية - (ج 11 / ص 252)
وقال محمد رحمه الله في الأصل : المدعى عليه هو المنكر.
وفی المبسوط لشمس الدين السرخسي - (ج 10 / ص 60)
وقيل المدعى من يشتمل كلامه على الاثبات.
وفی البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي - (ج 15 / ص 34)
(المدعي من إذا ترك ترك والمدعى عليه بخلافه) أي المدعي من لا يجبر على الخصومة إذا تركها والمدعى عليه من يجبر على الخصومة إذا تركها، ومعرفة الفرق بينهما من أهم ما يبتني عليه مسائل الدعوى. وقد اختلفت عبارات المشايخ فيه فمنها مافي الكتاب وهو حد عام صحيح.
وفی الاختيار لتعليل المختار - (ج 1 / ص 21)
المدعي من لا يجبر على الخصومة، والمدعي عليه من يجبر.

  سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

 21/3/1442ھ               

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب