70511 | خرید و فروخت کے احکام | قرض اور دین سے متعلق مسائل |
سوال
ایزی پیسہ، جاز کیش یا دوسری کمپنیاں اکاؤنٹ بنانے پر جو پیسے دیتے ہیں، یا اکاؤنٹ میں مقررہ مقدار میں پیسے رکھنے پر جو فری منٹس دیتے ہیں، ان کا استعمال جائز ہے یا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صرف اکاؤنٹ کھولنے پر کمپنی کی طرف سے ملنی والی رقم اور منٹس وغیرہ استعمال کرنا جائز ہے، یہ کمپنی کی طرف سے نئے کسٹمر کے لیے انعام ہے جس میں شرعا کوئی حرج نہیں۔ البتہ اکاؤنٹ میں رقم رکھنے پر ملنے والی سہولیات (پیسے، فری منٹس، ایس ایم ایس وغیرہ) استعمال کرنا جائز نہیں؛ کیونکہ ان اکاؤنٹس میں رکھی جانے والی رقوم کی حیثیت قرض کی ہوتی ہے، اور قرض پر مشروط نفع لینا سود میں داخل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔
حوالہ جات
معرفة السنن والآثار- البيهقي (8/ 173)
عن عبد الله بن عمر أنه قال : من أسلف سلفاً فلا يشترط إلا قضاءه . وروينا عن فضالة بن عبيد أنه قال : كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا . وروينا في معناه عن عبد الله بن مسعود وأبي بن كعب وعبد الله بن سلام وابن عباس.
رد المحتار (5 / 166):
(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا.
المعاییر الشرعیة (535):
مستند تکییف الحسابات الجاریة بأنها قروض ما یأتی:
أن المصرف یمتلك المبالغ المودعة فی الحسابات الجاریة و یکون له الحق فی التصرف فیها، و له نماؤها، و یلتزم برد مبلغ مماثل عند الطلب، و هذا هو معنی القرض الذی هو دفع مال لمن ینتفع به – أی یستخدمه و یستهلکه فی أغراضه – و یرد بدله….….. مستند تحریم الجوائز و الهدایا
إذا کان سببها هو القرض، بحیث إن من یقرض البنك یعطی من هذه الجوائز والهدایا هو أنها
من قبیل الهدیة للمقرض قبل الوفاء إذا کانت بسبب القرض……… مستند جواز کشف
الحسابات بین المؤسسات و مراسیلها هو الحاجة العامة، و أن المنفعة الحاصلة من جراء ذلك
لاتخص المقرض وحده، بل هی منفعة متماثلة، و أنها لیت من ذات القرض وإنما من الإقدام علی التعامل مع من یعاملك، فلا ترد مسألة (أسلفنی و أسلفك).
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
22/ربیع الاول/1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |