021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلب الخصومۃ میں تاخیر سے سقوطِ شفعہ کا حکم
70572شفعہ کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

دو فریقوں میں بابتِ مسئلۂ شفعہ اختلاف ہے، فریقِ اول مسمی حاجی اسلم نے فریقِ دوم مسمی حاجی غفار علی پر شفعہ کا دعویٰ کیا، جبکہ فریقِ دوم مدعیٰ علیہ نے دارِ مشفوع چار سال پہلے خریدا ہے۔ جوابِ دعویٰ میں مدعی علیہ نے کہا کہ گھر یا جگہ چار سال پہلے خریدی ہے اور آپ کو معلوم بھی تھا، مگر آپ نے بعدِ ثبوتِ طلب مواثبت اور طلبِ اشہاد کے چار سال تک طلبِ خصومت نہیں کی۔ جواب میں فریقِ اول مدعی کا کہنا ہے کہ اگرچہ میں نے عدالت کے ذریعے سے طلبِ خصومت نہیں کی، البتہ پنچایت، محاکمت اور علاقے کے مشران کے ذریعے کئی بار مدعی علیہ سے بات کرنے کی کوشش کی، مگر مدعی علیہ پنچایت کے ذریعے بات کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ مدعی علیہ کا کہنا ہے کہ آپ کے لیے عدالت کا راستہ کھلا تھا، آپ نے وہاں طلبِ خصومت کیوں نہیں کی؟  اب پوچھنا یہ ہے کہ:

  1. کیا ہماری عدالتوں کے جج صاحبان کو قاضی شرعی کی حیثیت حاصل ہے؟
  2. مذکورہ صورت میں فریقِ اول نے عدالت میں چار سال تک طلبِ خصومت نہیں کی، چار سال تک تاخیر کرنے کی وجہ سے اب کیا شفعہ ساقط ہوگیا ہے؟
  3. فریقِ اول کہتا ہے کہ فریقِ دوم پنچایت کے ذریعے محاکمہ کرنے کے لیے چار سال تک راضی نہیں تھا، لہٰذا میں طلبِ خصومت کی تاخیر میں معذور ہوں۔ سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ عدالتوں کے ہوتے ہوئے پنچایت کے ذریعے محاکمت کے لیے فریقِ دوم کا راضی نہ ہونا طلبِ خصومت کی تاخیر کے لیے عذر ہے؟

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ بائع، مشتری اور شفیع تینوں آپس میں بھائی ہیں۔ بائع نے جو جگہ مشتری کو بیچی وہاں بنات کا مدرسہ تھا، مشتری خریداری کے بعد سے ا تک وہاں مدرسہ چلا رہا ہے، تعمیرات میں اضافہ بھی کیا ہے۔ اب شفیع اور مشتری حَکَمَین کے پاس آئے ہیں، شفیع عدالت اب بھی نہیں گیا۔ حکمین کے سامنے شفیع کا موقف یہ ہے کہ میں نے مشتری کو بارہا حَکَم کے پاس جانے کا کہا لیکن وہ تیار نہیں ہوا، اس لیے میں عدالت نہ جانے میں معذور ہوں۔ جبکہ مشتری کا موقف یہ ہے کہ اگر میں حکم کے پاس جانے کے لیے تیار نہیں تھا تو آپ کے لیے عدالت کا دروازہ کھلا تھا، آپ وہاں چلے جاتے، لیکن آپ عدالت نہیں گئے، اس لیے آپ کا حقِ شفعہ ساقط ہوگیا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔۔۔ ہماری عدالتیں اور ان کے جج صاحبان لوگوں کے درمیان معاملات کا تصفیہ کرنے کے باب میں اس حیثیت اور ان اختیارات کے حامل ہیں جو فقہائے کرام نے قاضیوں کے لیے بیان کیے ہیں، لہٰذا ان کے جائز فیصلے معتبر ہوں گے، اور قاضی یا عدالت سے متعلقہ مسائل میں ان کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ جبکہ پنچایت اور حَکَم کی عام معاملات میں بذاتِ خود کوئی قانونی حیثیت نہیں، نہ ہی اس کے پاس ولایتِ اجبار ہوتی ہے، بلکہ وہ فریقین کی رضامندی سے فیصلہ کرنے کا مجاز بنتا ہے۔

(3-2)۔۔۔ صورتِ مسئولہ میں مشتری کا حَکَم کے پاس نہ جانا، عدالت میں طلبِ خصومت میں تاخیر کے لیے معتبر عذر نہیں؛ کیونکہ یہ امر عدالت جانے سے مانع نہیں تھا، بلکہ اس صورت میں شفیع کو بدرجۂ اولیٰ عدالت کی طرف رجوع کرنا چاہیے تھا۔ اس لیے جب شفیع بیع کے چار سال گزرنے اور عدالت جانے کی قدرت ہونے کے باوجود ابھی تک عدالت نہیں گیا تو اس کا حقِ شفعہ ختم ہوگیا ہے، اب وہ شفعہ کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔

حوالہ جات
الدر المختار (6/ 226):
ثم بعد هذين الطلبين يطلب عند قاض فيقول: اشترى (فلان دار كذا وأنا شفيعها بدار كذا لي) لو قال بسبب كذا كما في الملتقى لشمل الشريك في نفس المبيع (فمره يسلم) الدار (إلى) هذا لو قبضها المشتري، وطلب الخصومة لا يتوقف عليه (وهو) يسمى (تمليك وخصومة وبتأخيره مطلقا) بعذر شهرا أو أكثر (لا تبطل الشفعة) حتى يسقطها بلسانه (به يفتى) وهو ظاهر المذهب وقيل يفتى بقول محمد إن أخره شهرا بلا عذر بطلت، كذا في الملتقى يعني دفعا للضرر، قلنا: دفعه برفعه للقاضي ليأمره بالأخذ أو الترك.
رد المحتار (6/ 226):
قوله (به يفتى) كذا في الهداية و الكافي، درر. قال في العزمية: وقد رأيت فتوى المولى أبي السعود على هذا القول. قوله (وقيل يفتى بقول محمد) قائله شيخ الإسلام وقاضيخان في فتاوا ه
وشرحه على الجامع ومشى عليه في الوقاية و النقاية و الذخيرة و المغني،        وفي الشرنبلالية عن
البرهان أنه أصح ما يفتى به، قال: يعني أنه أصح من تصحيح الهداية و الكافي، وتمامه فيها،
وعزاه القهستاني إلى المشاهير كالمحيط و الخلاصة و المضمرات وغيرها، ثم قال: فقد أشكل ما في الهداية و الكافي. قوله (بلا عذر) فلو بعذر كمرض وسفر أو عدم قاض يرى الشفعة بالجوار في بلده لا تسقط اتفاقا، شرح مجمع. قوله (يعني دفعا للضرر) بيان لوجه الفتوى بقول محمد، قال في شرح المجمع وفي جامع الخاني الفتوى اليوم على قول محمد لتغير أحوال الناس في قصد الإضرار اه.
 وبه ظهر أن إفتاءهم بخلاف ظاهر الرواية لتغير الزمان، فلا يرجح ظاهر الرواية عليه وإن كان مصححا أيضا، كما مر في الغصب في مسألة صبغ الثوب بالسواد، وله نظائر كثيرة، بل قد أفتوا بما خالف رواية أئمتنا الثلاثة، كالمسائل المفتى فيها بقول زفر وكمسألة الاستئجار على التعليم ونحوه، فافهم. قوله (قلنا إلخ) أي في الجواب عن ذلك وظاهر كلام الشارح أنه يميل إلى ظاهر الرواية كالمصنف وهو خلاف ظاهر كلامه في شرحه على الملتقى، والجواب عنه أنه ليس كل أحد يقدر على المرافعة، وقد لا يخطر بباله أن دفع الضرر بذلك، خصوصا بعد ما إذا بنى أو غرس؛ فإن الضرر أشد، وقد شاهدت غير مرة من جاء يطلبها بعد عدة سنين قصدا للإضرار وطمعا في غلاء السعر، فلا جرم كان سد هذا الباب أسلم والله أعلم.
المجلة (ص: 200):
مادة 1034: لو أخر الشفيع  طلب الخصومة  بعد طلب التقرير والإشهاد  شهرا من دون عذر شرعي ككونه في ديار أخرى يسقط حق شفعته .
شرح المجلة للعلامة خالد الأتاسی (3/619-618):
                 هذا قول محمد، و به یفتی کما فی رد المحتار عن شیخ الإسلام و قاضی خان فی فتاواه و شرحه
علی الجامع، و مشی علیه فی الوقایة و النقایة و الذخیرة و المغنی. و فی الشرنبلالیة عن البرهان أنه أصح ما یفتی به. و مقابله ما فی التنویر و الکنز و الهدایة و غیرها، و هو ظاهر الروایة، من أنه لاتسقط الشفعة بتأخیر طلب الخصومة مطلقا.
و وجه قول محمد أنه لو لم تسقط الشفعة بالتأخیر للزم ضرر المشتری؛ لأنه یمنع عن التصرف فی ملکه خشیة أن یأخذه الشفیع و ینقض تصرفاته فیه، کما سیأتی.  والجواب عن ذلك بأن هذا الضرر یمکن دفعه بأن یرفعه إلی القاضی لیأمره بالأخذ أو الترك مدفوع بأنه لیس کل أحد یقدر علی المرافعة، و قد لا یخطر فی باله أن دفع الضرر فی ذلك. لا یقال إن ظاهر الروایة لا یعدل عنه، لا سیما إذا کان مصححا بأن علیه الفتوی کما فی التنویر و غیره؛ لما فی شرح  المجمع
عن الجامع الخانی: الفتوی الیوم علی قول محمد لتغیر أحوال الناس فی قصد الإضرار، اه.
و حیث کان إفتاءهم بخلاف ظاهر الروایة لتغیر الزمان، فلا یرجح ظاهر الروایة علیه و إن
کان مصححا أیضا (أفاده فی رد المحتار).
و أفادت هذه المادة أن خلاف محمد فیما إذا کان التأخیر بغیر عذر، فلو کان بعذر کمرض أو سفر
أو حبس، و لم یجد من یؤکل بالخصومة، أو لعدم قاض یری الشفعة بالجوار فی بلده لا تسقط شفعته اتفاقا و إن طالت المدة لعدم التمکن من الخصومة کما فی رد المحتار.  و ظاهر هذا أنه لو کان مسافرا و وجد من یوکله بالخصومة فلم یفعل حتی مضی الشهر لا یکون معذورا.
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (2/ 722):
وبما أن الناس يميلون إلى قصد الإضرار ببعضهم فقد اختارت المجلة هذا القول، وهو القول المفتى به، ( التنقيح، فتح المعين، الدرر، عبد الحليم ).

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

27/ربیع الاول/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب