021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہر کا خلع دینے کے لیے مہر سے زیادہ کا مطالبہ کرنا
70556طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

محترم مفتی صاحب! مجھے اپنے ایک معاملے کے سلسلے میں فتویٰ درکار ہے۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ میرے بیٹے کی بیوی اپنے شوہر کی اجازت سے میکے گئی۔ کچھ دن بعد جب بیٹے نے اس کو واپس سسرال جانے کے لیے کہا تو اس نے صاف انکار کردیا اور میاں سے سارے رابطے منقطع کردیے۔ میرا بیٹا اپنی ساس اور ماموں سسر(اصلی سسر کا انتقال ہوچکا ہے) کے ذریعے بیوی سے رابطے کی کوشش کرتا رہا مگر ناکامی پر اس نے ایک طلاق بھیج دی پھر بعد میں رجوع بھی کرلیا۔

اب اس کی بیوی بغیر کسی شرعی اور معقول وجہ بتائے خلع کا مطالبہ کررہی ہے، جب کہ میری بہو سسرال میں خوش اور مطمئن تھی، کیونکہ اس کے شوہر اور سسرال والوں کا اس کے ساتھ مثالی اور بہترین سلوک تھا۔ میرا بیٹا اس کو بالکل بھی چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ مگر اب خلع دینے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیا ہے تو کیا ایسی صورت میں:

  1. مہر کے علاوہ باقی جو سامان دیا گیا (طلائی زیورات اور موبائل) واپس لیا جاسکتا ہے؟
  2. بہو جہیز نہیں لائی تھی۔اس کی ذاتی استعمال کی چیزیں بھی میرے بیٹے نے مہیا کی، جن میں کپڑے،جوتے،کچھ سونے کے زیورات اور موبائل بھی شامل تھا۔ کیا یہ سب واپس آئےگا؟
  3. ساس،نند اور نانی ساس نے جو زیور دیا تھا وہ واپس آئے گا؟
  4. باقی رشتہ داروں نے جو پیسے دیے تھے وہ لڑکی کے حوالے نہیں کیے گئے تھے۔
  5. معاشرے اور خاندان کا عمومی رواج یہ ہے کہ خلع اور طلاق کی صورت میں فریقین اپنی اپنی چیزیں واپس لے لیتے ہیں۔ کیا اس کی اجازت ہے ہمارے معاملے میں بھی؟(کہ ہم اپنا دیا ہوا سارا سامان واپس لیں)۔
  6. چونکہ لڑکی والوں سے بارات کا کھانا،استقبالیہ، جہیز وغیرہ نہیں لیا گیا تھا اور سارا خرچہ لڑکے نے اٹھایا تھا تو کیا اب لڑکا اپنے دیے ہوئے سامان کے علاوہ کچھ اور رقم کا مطالبہ کرسکتا ہے؟

     

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

خلع کے بدلے میں عورت سے جو کچھ لیا جاتا ہے اس کے بارے میں شریعت کا اصول یہ ہے کہ اگر قصور شوہر کا ہو تو پھر بیوی سے کسی بھی چیز کا مطالبہ کرنا حرام ہے۔اس صورت میں جو مہر دیا جاچکا ہے وہ واپس نہیں لیا جاسکتا اور جو نہیں دیا گیا وہ شوہر کے لیے معاف ہوجاتا ہے۔ اور اگر قصور بیوی کا ہو تو پھر بہتر اور افضل یہ ہے کہ صرف مہر کا مطالبہ کیا جائے، اس سے زیادہ کا مطالبہ کرنا مناسب نہیں۔ لیکن اگر شوہر مہر کے ساتھ یا مہر کے علاوہ کسی اور چیز کا مطالبہ کرے تو یہ بھی جائز ہے۔

اس اصول کی روشنی میں شوہر خلع دینے کے لیے سوال میں ذکر کردہ تمام اشیاء کا مطالبہ کرسکتا ہے، بشرطیکہ بیوی اس کو قبول کرے، کیونکہ خلع ایک عقد ہے جس میں طرفین کی رضامندی ضروری ہے۔ افضل یہ ہے کہ صرف مہر کا مطالبہ کیا جائے۔ البتہ اگر شوہر  نے  بغیر کسی عوض کے یا صرف مہر  کے بدلے خلع دے دیا تو پھر بعد میں مہر کے علاوہ کسی بھی چیز کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔

باقی جو پیسے رشتہ داروں نے لڑکی کے لیے دیے تھے اور وہ اس کو حوالہ نہیں کیے گئے تو وہ لڑکی کی امانت ہے جو اس کو دینا ضروری ہے، الا یہ کہ لڑکی کی رضامندی سے یہ پیسے خلع کا عوض بنائے جائیں تو پھر نہیں دیے جائیں گے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 445)
(وكره) تحريما (أخذ شيء) ويلحق به الإبراء عما لها عليه (إن نشز وإن نشزت لا) ولو منه نشوز أيضا ولو بأكثر مما أعطاها على الأوجه فتح، وصحح الشمني كراهة الزيادة، وتعبير الملتقى "لا بأس به" يفيد أنها تنزيهية وبه يحصل التوفيق.(قوله: وبه يحصل التوفيق) أي بين ما رجحه في الفتح من نفي كراهة أخذ الأكثر وهو رواية الجامع الصغير، وبين ما رجحه الشمني من إثباتها وهو رواية الأصل، فيحمل الأول على نفي التحريمية والثاني على إثبات التنزيهية، وهذا التوفيق مصرح به في الفتح.
الفتاوى الهندية (10/ 311)
وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان .
المبسوط للسرخسي (6/ 183)
وعن ابن عمر رضي الله عنه أن مولاة اختلعت بكل شيء لها فلم يعب ذلك عليها، وعن ابن عباس رضي الله عنه لو اختلعت بكل شيء لأجزت ذلك، وهذا؛ لأن جواز أخذ المال هنا بطريق الزجر لها عن النشوز؛ ولهذا لا يحل إذا كان النشور من الزوج، وهذا لا يختص بما ساق إليها من المهر دون غيره.
درر الحكام شرح غرر الأحكام (1/ 389)
(ويفتقر إلى إيجاب وقبول) كسائر العقود (وهو في جانب الزوج يمين) لأنه تعليق الطلاق بشرط قبولها المال،(وفي جانبهاكبيع) يعني معاوضة لأنها تبذل مالا لتسلم لها نفسها.

سیف اللہ

             دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

                 22/03/1442ھ       

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سیف اللہ بن زینت خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب