021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بہو کو ہاتھ لگانے سے حرمتِ مصاہرت کا حکم
70574طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

سُسر نے اگرغلطی سے بہو کو ہاتھ لگا دیا تو بہو کو طلاق واقع ہو جاتی ہے یا نہیں؟ اگر طلاق واقع ہو جاتی ہے تو بہو کو کیسے علم ہو گا کہ سُسر کی نیت خراب تھی؟ بہو تو سسر کو باپ سمجھ رہی تھی، نیز شوہر کو بھی یہ یقین کیسے حاصل ہو گا کہ اس کے باپ کی نیت خراب تھی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

   بطورِ تمہید جانا چاہیے کہ حرمتِ مصاہرت کے ثبوت کے لیے درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:

  1. جس عورت کو چُھوا ہو وہ مشتہاۃ ہو ،یعنی جس کی طرف شہوت پیدا ہوتی ہواور مفتی بہ قول کے مطابق  نو (9)  سال کی لڑکی مشتہاة  ہے۔
  2. چھونے  کی حالت میں شہوت آگئی ہو یا اگر پہلے سے شہوت موجود ہو تو اس میں مزید شدت آگئی ہو، البتہ دوسری طرف سے شہوت کا ہونا ضروری نہیں، بلکہ حرمتِ مصاہرت کے ثبوت کے لیے کسی ایک جانب شہوت کا پایا جانا کافی ہے۔
  3. کسی کپڑے وغیرہ کے بغیر  چُھوا ہو یا کوئی ایساباریک کپڑا درمیان میں حائل ہو کہ جسم کی حرارت محسوس ہوئی ہو۔
  4. شہوت اسی عورت پر ہو  جس کو چُھو اہے، کسی دوسری عورت پر نہ ہوئی ہو۔
  5. شہوت کی وجہ سے اس عورت کے بارے میں  غلط خیال (شہوتِ جماع ) دل میں پیدا ہوا ہو۔
  6. اس وقت انزال بھی نہ ہوا ہو، اگر اسی وقت انزال ہو گیا تو حرمت ثابت نہ ہو گی۔

(مأخذہ امداد الأحکام: ج2 ص 797 تا 809)

  1. بہو کو چھونے کی صورت میں یہ بھی شرط ہے کہ شوہر بھی  اس بات کی تصدیق کرے کہ اس کے باپ نے واقعتاً اس کو شہوت کے ساتھ چھوا ہے اور مذکورہ بالا شرائط بھی پائی گئی تھیں، لیکن اگر شوہر کو اس بات کا علم نہ ہو اور وہ عورت کی تصدیق نہ کر ے تو شوہر کے حق میں حرمت ِمصاہرت ثابت نہیں ہو گی، البتہ اس صورت میں  اگر عورت کو شہوت کی حالت میں چھونے کا یقین ہو ، مثلا: چھاتی کو چُھوا ہو یا رُخسار کا بوسہ لیا ہو وغیرہ تو اس پر لازم ہے کہ وہ گوا ہوں کے ذریعہ  عدالت میں ثبوت پیش کر کےتنسیخِ نکاح کا فیصلہ کروا لے، کیونکہ ایسی حالت میں عورت کے لیے دیانتاً شوہر کو اپنے اوپر قدرت دینا جائز نہیں، بلکہ مرد سے طلاق یا خلع وغیرہ  لے کر علیحدگی اختیار کرنا واجب ہے۔              (ماخذہ: حیلہ ناجزہ:ص:91)                                          

اس تمہید کے بعد سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر سُسر نے مذکورہ بالا شرائط کے پائے جانے کے ساتھ بہو کو چُھولےتو فقہائے حنفیہ رحمہم اللہ کے نزدیک میاں بیوی کے درمیان حرمتِ مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے اور فریقین کے درمیان نکاح ختم ہو جاتاہے۔رہی یہ بات کہ بہو اور اس کے شوہر  کو سُسر کی نیت کا علم کیسے ہو گا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر سُسر نے چھاتی یا کسی اور ایسی جگہ ہاتھ لگایا جہاں عام طور پر شہوت کے ساتھ ہی چُھوا جاتا ہے  یا رُخسار کا بوسہ لیا تو اس صورت میں سُسر کا فعل اس کی نیت کے خراب ہونے پر دلالت کرنے کے لیے کافی ہے اور ایسی صورت میں اس کی عدمِ نیت کا اعتبار نہیں ہو گا۔

 لیکن اگر سُسر نے اس کے علاوہ کسی  عضو کو ہاتھ لگایا، جیسے بازو یا سر وغیرہ تو اس صورت میں بہو  اور اس کے شوہرکے لیے مناسب نہیں کہ وہ بغیر کسی وجہ اور دلیل  کے  سُسر کے بارے میں بدگمانی کریں، بلکہ دونوں میاں بیوی پر لازم ہے کہ وہ حسنِ ظن رکھتے ہوئے اپنے دل کو صاف رکھیں۔ اگر  بالفرض سُسر کے دل میں خراب نیت ہو گی تو اس کا گناہ  اُسی پر ہو گا۔

حوالہ جات

فتح القدير للكمال ابن الهمام (3/ 224) دار الفكر، بيروت:

ولو مس فأنزل فقد قيل إنه يوجب الحرمة، والصحيح أنه لا يوجبها لأنه بالإنزال تبين أنه غير مفض إلى الوطء، وعلى هذا إتيان المرأة في الدبر.

الدر المختار مع حاشية ابن عابدين  (3/ 33) دار الفكر-بيروت:

(وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقا والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قبله أو زيادته وفي الجوهرة: لا يشترط في النظر لفرج تحريك آلته به يفتى هذا إذا لم ينزل فلو أنزل مع مس أو نظر فلا حرمة به يفتي۔

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (3/ 66) دار الكتب العلمية، بيروت:

ومن المشايخ من فصّل في التقبيل بينما إذا كان على الفم وبينما إذا كان على الجبهة والرأس فقال: إن كانت القبلة على الفم يفتى بالحرمة ولا يصدق إن كان بغير شهوة۔

 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 38) دار الفكر-بيروت:

وقدمنا عن الذخيرة أن الأصل فيه عدم الشهوة مثل النظر، فيصدق إذا أنكر الشهوةإلا أن يقوم إليها منتشرا أي لأن الانتشار دليل الشهوة، وكذا إذا كان المس على الفرج كما مر عن الحدادي؛ لأنه دليل الشهوة غالبا، وما ذكره في الفتح بحثا من إلحاق تقبيل الخد بالفم أي بخلاف الرأس والجبهة۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام (3/ 222) دار الفكر-بيروت:

وكثير من المشايخ لم يشترطوا سوى أن يميل قلبه إليها ويشتهي جماعها، وفرع عليه ما لو انتشر فطلب امرأته فأولج بين فخذي بنتها خطأ لا تحرم عليه الأم ما لم يزدد الانتشار. ثم هذا الحد في حق الشاب أما الشيخ والعنين فحدها تحرك قلبه أو زيادة تحركه إن كان متحركا لا مجرد ميلان النفس فإنه يوجد فيمن لا شهوة له أصلا كالشيخ الفاني، والمراهق كالبالغ، حتى لو مس وأقر أنه بشهوة تثبت الحرمة عليه. وكان ابن مقاتل لا يفتي بالحرمة على هذين لأنه لا يعتبر إلا تحرك الآلة. ثم وجود الشهوة من أحدهما كاف ولم يحدوا الحد المحرم منها في حق الحرمة وأقله تحرك القلب على وجه يشوش الخاطر. هذا وثبوت الحرمة بمسها مشروط بأن يصدقها أو يقع في أكبر رأيه صدقها. وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها: لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

27/ربيع الاول 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / مفتی محمد صاحب